Categories
غزل

اتنا ٹوٹا ہوں کہ چُھونے سے بِکھر جاؤں گا

اتنا ٹوٹا ہوں کہ چُھونے سے بِکھر جاؤں گا
اب اگر اور دعا دو گے تو مر جاؤں گا

لے کے میرا پتا وقت رائیگاں نہ کرو
میں تو بنجارا ہوں کیا جانے کہاں جاؤں گا

اس طرف دُھند ھے، جگنو ھے نہ چراغ کوئی
کون پہچانے کا بستی میں اگر جاؤں گا

زندگی میں بھی مسافر ہوں تیری کشتی کا
تو جہاں مجھ سے کہے گا میں اتر جاؤں گا

پھول رہ جائیں گے گلدانوں میں یادوں کی نذر
میں تو خوشبو ہوں فضاؤں میں بکھر جاؤں گا 

محمد اشرف

One reply on “اتنا ٹوٹا ہوں کہ چُھونے سے بِکھر جاؤں گا”

💞
💗بہت عمدہ غزل کا انتخاب کیا ہے آپ نے 💖
💟جواب نہیں اس انتخاب کا 💓

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *