Categories
کہانیاں

ایک شام کی کہانی میری زبانی

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
کل کی شام بہت عجیب تھی۔ تین گھنٹوں میں مجھے بیک وقت خوشی، پریشانی اور رنج سے گزرنا پڑا۔ جمعہ کا دن بہت مصروف ہوتا ہے۔ کیونکہ اس دن پورے ہفتہ کا کام کلائنٹ کو بھیجنا ہوتا ہے۔ تقریبا رات آٹھ بچ کر بیس منٹ پر فارغ ہوا۔ نکلنے لگا تو معلوم ہوا باہر طوفانی بارش ہو چکی ہے اور ہلکی ہلکی بارش اب بھی ہو رہی ہے۔ ملتان اور بارشیں آپ میں کوئی تعلق نہی اور اس بار تو رحمتوں کا نزول مئی میں بھی ہو رہاہے۔ بلڈنگ سے باہر نکلا تو یلکی یلکی بارش ہو رہی تھی۔ ہلکی ہلکی پھوار میں چلنا مجھے ہمیشہ اچھا لگتا ہے۔ باہر کوئی رکشہ بھی نہی تھا اور موسم بھی لطف انگیز تھا سو سوچا چوک تک چلتا ہوں کوئی نہ کوئی رکشہ مل ہی جائے گا۔ پرانے گانے گنگناتے ہوئے میں خراماں خراماں چلنے لگا۔ بارش کے قطرے مجھے بھگو رہے تھے اور میں سرور میں “ملو نہ تم تو ہم گھبرائیں ملو تو آنکھ چرائیں ہمیں کیا ہو گیا ہے” گنگنا رہا تھا۔ دفتر کی بلڈنگ کے آگے ہوٹل ہے اور پھر ہزار گز کے فاصلے پر چوک۔ جب میں دو سو میٹر چوک سے پہلے پہنچا تو دیکھا وہاں تو ایک فٹ پانی جمع تھا۔ میں وہی کھڑا ہو گیا۔ نہ رکشہ نہ کوئیاور سواری۔ بہت سے موٹر سائکلوں کو روکنے کی کوشش کی۔ اشارے کئے، لیکن یہ تو وہ دور ہے کہ جب کوئی کسی کو بخار نہ دے یہ تو مدد تھی۔ آخر ناچار شلوار ٹنگ کر پانی میں اللہ کا نام لے کر چل پڑا۔
ابھی دو چارک قدم ہی چلا تھا اور دو چار قدم ہی رہ گئے تھے کہ قریب سے گزرتی گاڑی نے گندے پانی سے غسل دے دیا۔ دل تو چاہ رہا تھا زور زور سے نرگس پر فلمایا گانا گنگناؤں لیکن اپنے سفید کپڑوں کی حالت دیکھ کر دل مسوس کر رہ گیا۔ گاڑی والے کو دو چار بے نقط سنائیں اور قدم تیز کر دئے۔ چوک پرپہنچا تو ایسا لگا جیسے کوئی احتجاج ہو رہا ہو۔ کافی لوگ دکانوں کی پرچھتی کے نیچے یوں کھڑے تھے جیسے سزا دی گئی ہو اور پورے چوک پر کوئی رکشہ نہی تھا۔ موٹر سائیکلوں اور گاڑیاں ادھر ادھر جا رہی تھیں۔ میں بھی ایک دکان کے سائے میں کھڑا ہو گیا۔ اپنی حالت دیکھی تو ایسا لگا جیسے سنی لیوں کی کسی فلم کا سین ہے۔ باقی تمام لوگ بھی ایسا ہی نظارہ پیش کر رہے تھے۔چوک پر چار راستے یہں جن میں سے دو راستوں سے میرے گھر کی جانب جایا جا سکتا ہے۔ ایک روژ پر دور دور تک دو دو فٹ پانی دکھائی دے رہا تھا۔ ادھر جانے کا تو سوال ہی پیدا نیہ ہوتا تھا۔ ملتان میں پل تو بنا دئے گئے تھے لیکن نکاسی کا نظام شائد لوگوں کی آزمائش کے لئے چھوڑ دیا گیا تھا۔ یا شائد انہوں نے سوچا ہو کہ ملتان میں بارش ہوتی ہی کہاں ہے۔
جب بھی کوئ رکشہ آتا چھپڑوں سے لوگوں کی یلغار اس پر ٹوٹ پڑتی۔ اور رکشہ حسینہ عالم کی طرح سر بلند ایسے کھڑا ہوتا جیسے مغلیہ دور کے شہنشاہ عوام کے سامنے گھڑے ہوتے تھے ۔ کرائے آسمان چھوڑ کائنات سے باتیں کر رہے تھے۔ ہمت کر کے ایک آدھ کی طرف میں نے بھی بھاگنے کی کوشش کی لیکن ہمت مراداں شائد پروگرامنگ نے کھا لی تھی۔ سوچا ساجد حسین اس سے پہلے کہ کوئی چک شک پڑ جائے یا ٹانگ مڑ جائے عافیت اسی میں ہے کہ تماشا دیکھو تماشے کا حصہ نہ بنو۔ سوا نو بچ چکے تھے اور ہنوز بارش رکنے کا نام نہی لے رہی تھی۔ بھوک سے آنتیں قل ہو اللہ پڑھر ہی تھیں۔ کونے کھدروں کے چوہے بھی تلملا رہے تھے۔ قریب سموسوں کی خوشبو آ رہی تھی۔ دکان پر جا کر ایک سموسہ خریدا اور اکھیاں ملاؤں کبھی اکھیاں چراؤں گاتے گاتے کھانا شروع کیا۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ جس طرف میں کھڑا ہوتا رکشہ کسی اور کونے میں آتا۔ میں اس طرف جاتا تو رکشہ پچھلے جگہ پر آ جاتا۔ یا اللہ کیا میرا سارا وزن آج ہی کمکرنا ہے۔ سوچتے سوچتے اور ادھر ادھر آتے جاتے ساڑھے دس بچ گئے۔
جیب سے موبائل نکالا کیونکہ آفس نکلنے سےپہلے گھر فون کر دیتا ہوں تاکہ گھر پر چھاپے کا خطرہکم ہو جائے۔ بچے دھلے دھلائے بیٹھے ہو بیگم کھانا تیار کر چکی ہو۔ راوی چین ہی چین لکھے۔ دیر ہو جائے تو کال بیک آ جاتی تھی اور اتنی دیر گزر گئی فون کی گھنٹی نہی بچی۔ فون نکالا تو بند تھا دوبارہ آن کیا تو بیٹری لو کا مسچ دے کر بند ہو گیا۔ اوہ اللہ گھر میں اور کوئی ہو نہ ہو بیگم تو پریشان ہو گی۔ فون بھی نی مل رہا ہو گا۔ اب کیا کروں چاروں طرف نظر دورائیں کہیں پی سو او کا نشان نہ ملا۔ آخر قریب کھڑے ایک شخص سے میں نے پوچھا موبائل ہو گا آپ کے پاس ایک کال کرنی ہے۔ اس نے مجھے ایسے گھورا جیسے میں موبائل سمیت اسے بھی اغوا کر لوں گا پھر کسی اور سے کہنے کی ہمت نہی ہوئی۔ کیا کروں؟ آخر میں نے سوچا آفس واپس چلتا ہوں شائد کوئی موجود ہو تو وہاں سے فون کر لوں گا۔ پانی کا سمندر دوبارہ عبور کیا شکر ہے اس دفعہ کسی گاڑی نے غسل دوبارہ نہی کروایا۔ آفس کی بلڈنگ میں داخل ہونے لگا تو لفٹ بند۔ دس بچے لفٹ بند کر دی جاتی تھی۔ تھرڈ فلو تک سیڑھیوں سے جانا۔ تھرڈ کا مطلب بھی پانچویں منزل تک سیکورٹی گارڈ سے پوچھا میرے آفس والے چلے گئے وہ بولا کب کے۔ اس سے فون لیا۔ اور مسچ کیا گھر میں کیونکہ اس کے فون میں بھی بیلنس نہی تھا۔
وہی بلڈنگ کے باہر کھڑا ہو گیا۔ خوشی اور پریشانی کے لمحے گزر چکے تھے۔ اب بات گانوں سے دعاؤں پر آ پہنچی تھی۔ اللہ تعالی سے جب معافی تلافی مانگ لی تو ایک رکشہ میرے قریب سے گزرا۔ آج زندگی میں پہلی بار میں نے چیخ کر رکشہ پکارا۔ دو سو روپئے میں بات طے ہوئی۔ حالانکہ 70 یا 80 میں روزآنہ جاتا ہوں۔ رکشہ چل پڑا میں دوبارہ تائپ ہو کر میٹھے میٹھے گانے گانے لگا۔ بارش اچھی لگنے لگی تھی۔ موسم عاشقانہ محسوس ہو رہاتھا۔ دل چاہ رہا تھا کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رکشہ اتنی دیر میں گھننٹہ گھر پہنچ چکا تھا۔ گھنٹہ گھر سے نو نمبر کی طرف جب رکشہ مڑا تو آگے پانی ہی پانی تھا۔ ایک فٹ سے زیادہ ہی تھا کیونکہ رکشہ کے ٹائڑ سے اوپر تھا۔ رکشہ والے نے رکشہ روک دیا۔ میں نے اس سے کہا 250 لے لیین اور وہ راضی ہو گیا۔ رکشہ آہستہ آہستہ چلنے لگا کہ اچانک کسی آدمی کے چیخنے چلانے کی آؤاز نے مجھے چونکا دیا۔ رکشہ رک گیا اور میرے سامنے ایک بیل گاڑی لکڑیوں سمیت گڑی ہوئی تھی۔ گاڑی کا اگلا حصہ نے بیل کو پھانسی سی دی ہوئی تھی۔ بیل گڑگڑا رہا تھا بیل والا چیخ چیخ کر لکڑی کو بھینس کی گردن سے جدا کرنے کی کوشش کر رہا تھا کچھ لوگ ادھر ادھر سے اکٹھے ہو کر اس کی مدد کرنے لگے۔ گاڑی تو اٹھ گئی لیکن بیل۔ اس کی آنکھیں ابل گئی تھیں اس کی موت دیکھ کر مجھے سکتہ سا ہوگیا کسی جانور کو اپنے سامنے مرتے دیکھنا میرے لئے پہلا واقعہ تھا۔ لمحہ لمحہ موت کسی ہوتی ہے۔ یا اللہ معاف کر دے۔ اس رنچ کی کیفیت میں میں کیسے گھر پہنچا یہ میں ہیجانتا ہوں۔ زی روح کیا شے ہے۔ چند سیکنڈ بھی نہی لگتے پھر وہ کس لئے دولت کے محل بناتا ہے۔ لالچ میں اس حد سے گزر جاتا ہے کہ سگے رشتوں کی گردن زنی سے باز نہی آتا۔

One reply on “ایک شام کی کہانی میری زبانی”

Aoa.

Sajid sab, me aap ki tehreron aur mushahiday ka bachpan se hi fan hon. Aap aik hasas mizaj admi hain aur ye baat aap ki tehreron se ayana hai. Ye to boht afsosnak waqaia hai., but ap se aik baat pochna chahta hon k aap ne iss rakshay walay ko bhi kraya nahin diya na?

Wa Salam,
Aap ka fan

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *