Categories
قوالی

ایسے بے شرم عاشق

ایسے بے شرم عاشق

ایسے بے شرم عاشق ہیں یہ آج كے
ایسے بے شرم عاشق ہیں یہ آج كے
ان کو اپنا بنانا غضب ہو گیا
دھیرے دھیرے کلائی لگے تھامنے
دھیرے دھیرے کلائی لگے تھامنے

ان کو انگلی تھمانا غضب ہو گیا

جو گھر میں سل پہ مسالہ تلک نہ پیس سکیں
اُنہیں یہ ناز ہمیں خاک میں ملائیں گے
کلائی دیکھو تو چوڑی کا بوجھ سہ نہ سکے
اُس اس پہ دعویٰ كہ تلوار ہَم اٹھائیں گے
فریپ و مگر میں انکا نہیں کوئی ثانی
یہ جس کو ڈس لیں وہ مانگے نہ عمر بھر پانی
بڑا عزیب دستور انکی محفل کا
بلایا جاتا ہے عزت بڑھائی جاتی ہے
پِھر اسکے بَعْد وہیں قتل کرکے عاشق کو
بڑی دھوم سے میّت اٹھائی جاتی ہے
خطا ہماری ہے جو ہم نے ان سے پیار کیا
برا کیا جو حسینوں پہ اعتبار کیا
بھول ہم سے ہوئی ان کے عاشق بنیں
بھول ہم سے ہوئی ان کے عاشق بنیں
پاس ان کو بُلانا غضب ہو گیا
ٹھوکروں میں تھے جب تک تو سیدھے تھے یہ
ٹھوکروں میں تھے جب تک تو سیدھے تھے یہ

ارے ان کو سَر پہ بیتھانا غضب ہو گیا

ہَم عورتوں کو نظر سے اتارنے والوں
خبر بھی ہے تمہیں شیخی بگھاڑنے والوں
كہ اِس زمین پہ پتنی بھی اک ععورت ہے
كہ جس میں مرد کو للکارنے کی ہمت ہے
پہن كے سَر پہ دلیری کا تاز بیٹھی ہے
جو گھر میں تھی وہ سنگھاسن پہ آج بیٹھی ہے
اگر جھکے تو یہ دِل کیا ہے جان بھی دے دے
جو سَر اٹھائے تو مردوں کی جان بھی لے لے
اگرچہ پھول کا اک ہار ہے یہی عورت
جو ضد پہ آئے تو تلوار ہے یہی عورت
یہ پتلی بنکے زمانے کو موڑ سکتی ہے
اٹھے تو مرد کا پنجہ مروڑ سکتی ہے
تیری ہمت پہ پتلی ہمیں ناز ہے
تیری ہمت پہ پتلی ہمیں ناز ہے

تیرا میدان میں آنا غضب ہو گیا

اک دن بولے فرشتے کر كے یہ دُنیا کی سیر
یا خدا دُنیا تیری سونی ہے عورت كے بغیر
اٹھ پڑے حكمت دکھانے كے لیے قدرت كے ہاتھ
سوچ لی مولا نے عورت کو جنم دینے کی بات
اِس طرح مالک نے کی کاریگری کی ابتدا
چاند سے مانگا اجالا نور سورج سے لیا
روپ سیاروں سے مانگا رنگ اوشا سے لیا
پنگھریوں سے لی نزاکت اور کلیوں سے ادا
شام سے کاجل لیا اور صبح سے غازہ لیا
بجلیوں سے قہر مانگا آگ سے غصہ لیا
حوصلہ چٹان سے اور درد پنچھی سے لیا
آسْمان سے ظلم مانگا صبر دھرتی سے لیا
شاخ سے انگڑائیاں جھرنوں سے اٹھلانا لیا
بلبلے سے نازکی لی ندی سے بل کھانا لیا
آئینہ سے حیرت لی تصویر سے خاموشیاں
لہر سے اٹھکیلیاں مانگی پون سے شوخیاں
اآنکھ لی ہرنی سے اور شبنم سے آنسوں لے لیا
بادلوں سے زلف نظاروں سے جادو لے لیا
لاجوانتی سے شرم اور رات رانی سے حیا
آبرو موتی سے لی سورج مکھی سے لی وفا
زہر ناگن سے لیا اور سانپ سے ڈسنا لیا
کاتنا بیچحو سے مانگا تیر سے چھبنا لیا
لومڑی سے مانگ لی تا عمر کی مکاریان
مکھیون سے شور اور مچھر سے لی عییاریاں
اتنی چیزیں جمع ہوکے جب لگی مولا كے ہاتھ
اور ان سب کو ملایا جب خدا نے اک ساتھ
تب کہیں جاکر بڑی محنت سے اک مورت بنی
دلنشیں پیکر بنا اک دلربا صورت بنی
دیکھ کر اپنی کلاکاری کو مولا ہنس پڑا
اور اسی انمول شائے کا نام عورت رکھ دیا
رکھ چکا جب نام اسکے بَعْد یوں کہنے لگا
کیا
میں بنا کر تجھے خود پریشان ہوں
میں بنا کر تجھے خود پریشان ہوں

ارے تجھ کو دُنیا میں لانا غضب ہو گیا

جب میرے مولا نے سوچا مرد کو پیدا کرے
سب سے پہلے یہ سوال آیا كہ قدرت کیا کرے
پتھروں سے سنگ دلی لئ اور بےرخی تقدیر سے
قہر طوفانوں سے ماننگا اور غضب شمشیر سے
لی گدھے سے عقل کوے سے سیانا پن لیا
اور کچھ کتے کی ٹیڑھی دم سے ٹیڑھا پن لیا
گھات لی بلی سے اور چوحے سے مانگا بھاگنا
اور الو سے لیا راتوں کو اس کا جاگنا
لے لیا طوطے سے آنکھیں پھر لینے کا چلن
بھیڑیے كے خون پینے کا لیا دیوانہ پن
لی گئی گرگٹ سے ہردم رنگ بدلنے کی ادا
جس سے عورت کو دیا کرتا رہے دھوکہ صدا
تو اسکو نافرمایناں بخشی گئیں شیطان کی
جھوٹ بولے تاکہ یہ کھا کر قسم بھگوان کی
لے کے مٹی میں مسالہ جب یہ ملوایا گیا
فرق اس دم مرد کی فطرت میں یہ پایا گیا
مرد كے پتلوں میں جس دم جان دوڑائی گئی
اس میں عورت کی بھی تھوڑی سی ادا پائی گئی
عورتوں میں مرد کی صورت نہیں ملتی جناب
پر انہی مردوں میں ملتے ہیں زنانے بےحساب
شکل مردوں کی تو عادت كے زنانے ہو گئے
شکل مردوں کی تو عادت كے زانانی ہو گئے
کیا خدا نے چاہا تھا اور کیا نہ جانے ہو گئے
بن چکا جب مرد تو مولا نے میرے یوں کہاں
کیا
كہ اچھا خاصہ بنایا تھا میں نے اسے
اچھا خاصہ بنایا تھا میں نے اسے

بن گیا یہ زنانہ غضب ہو گیا

واہ رے پتلی بائی کیا دلیری دکھائی
تیری ہمت كے صدقے تیری جراآت كے صدقے
اپنی شہرت کا جھنڈے تو نے دنیا میں گاڑھا
اچجے اچھوں کو تونے ایک پل میں پچھاڑا
تو بہادر تو نڈر عقل اور ہوش تجھ میں
جسم عورت کا لیکر مرد کا جوش تجھ میں
جس کو سمجھے نا کوئی وہ الٹ پھیر ہے تو
تیری ہمت کی قسم واقعئ شیر ہے تو
ناری ہو کر بھی تونے واہ کیا گل کھلایا
جو نہ مردوں سے ہوا تونے وہ کر دکھایا
تیرے اونچے ارادے تیرا ہر کام اونچا
تونے عورت کا جگ میں کر دیا نام اونچا
تو نے جو کچھ بھی منه سے کہاں کر دیا
تو نے جو کچھ بھی منه سے کہاں کر دیا
تیرا کرکے دکھانا غضب ہو گیا
تیری ہمت پہ پتلی ہمیں ناز ہے
تیرا میدان میں آنا غضب ہو گیا
تیری ہمت پہ پتلی ہمیں ناز ہے

Movie/album: Putlibai (1972)
Singers: Rashida Khatoon, Yusuf Azad
Song Lyricists: Zafar Gorakhpuri
Music Composer: Jaikumar Paarte
Music Director: Jaikumar Paarte

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *