Categories
افسانے

چی چوں

میرے لئے جان بچانا مشکل ہو رہا تھا۔ میں اس وقت کو کوس رہا تھا جب ماں کے کہنے پر میں نے گھونسلے سے چھلانگ لگائی تھی۔ “کیا ماں میری دشمن ہے؟” میں نے روتی آنکھوں کے ساتھ سوچا۔ “نہی نہی! ایسا نہی ہو سکتا۔ اگر ایسا ہوتا تو اس وقت ماں اور بابا ہمسائیوں کے ساتھ مل کر چیخ کیوں رہے ہوتے۔ “بچو چی” ماں نے پوری قوت سے چیخ کر کہا۔ منڈیر سے اڑتی ہوئی اس بچے کے سر سے گزر گئی تاکہ وہ مجھے پتھر نہ مار سکے۔ مگر اس سے پہلے کہ میں بچنے کی کوشش کرتا پتھر اڑتا ہوا میری دائیں پسلیوں پر لگا تکلیف کی شدت اور موت کے خوف سے چند لمحوں کے لئے میں ساکن ہو گیا۔ میری آنکھیں آنسووؐں سے بھر چکی تھیں مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ ہر شے دھندلی ہو گئی ہے۔ ماں بے چینی سے دائیں بائیں اڑ رہی تھی۔ بابا بار بار کہ رہے تھے “بچے ہمت سے کام لو۔ اڑنے کی کوشش کرو۔ پر پھیلاوؐ ۔ اڑنے کی کوشش کرو”۔ بے بسی ان کے چہرے سے عیاں تھی۔ آسمان پر اڑنے والے ماں بابا اور سب کا بس نہی چل رہا تھا کہ مجھے اپنے پروں میں چھپا کر واپس گھونسلے میں لے جائیں۔ مگر لگتا تھا اب یہ ممکن نہی۔
ٍ
مجھے اچھی طرح یاد ہے جب میں نے چونچ مار کر انڈے کے خول کو توڑا تھا تو سب سے پہلے ماں کا مسکراتا چہرہ نظر آیا تھا۔ “ماں آپ کی آنکھوں میں آنسو؟” میں نے گردن باہر نکالتے ہوئے پوچھا۔ “باہر آؐو میرے چاند” یہ خوشی کے آنسو ہیں۔ ہم تو تم سے نا امید ہو چکے تھے۔ دو دن ہو گئے تمہارے بھائیوں کو باہر آئے ہوئے۔ میرا سر چومتے ہوئے ماں نے بتایا۔ “ناہر آو نا، ہاں ہاں کوشش کرو” میں نے اپنا پورا زور لگایا مگر میں خول کو مکمل توڑ کر باہر نہ آ پایا۔ یکدم بابا آگے بڑھے اور انہوں نے مجھے سر سے بڑے پیار سے پکڑا اور باہر کھینچ لیا۔ باہر نکلا تو دو اور بچوں کو اپنے سامنے پایا۔ ” یہ دونوں تمہارے بھائی ہیں۔ یہ چا چوں اور یہ چو چوں ہے” بابا نے میرا تعارف کروایا۔ میں بہت خوش تھا مجھے جیسےسارے جہاں کی دولت مل گیئ ہو۔
ٍ
چند دن ایسے ہی گزر گئے۔ ماں بابا چلے جاتے اور آتے جاتے رہتے۔ جب بھی آتے ہمارے لئے کھانے کو ضرور لاتے۔ ان کی آہٹ سنتے ہی ہم منہ کھول دیتے خوراک ملتے ہی ہم سب چوں چوں کا شور مچا دیتے۔ ماں مجھے زیادہ پیار کرتی تھی۔ وہ سمجھتی تھی کہ میں باقی دونون بھائیوں کی نسبت کمزور ہوں۔ میرے دونوں بھایئ اب گھونسلے کی منڈیر پر جا کھڑتے ہوتے۔ اپنے پر پھیلاتے سمیٹتے اور اس عمل کو بار بار دہراتے جیسے جلد ہی وہ ماں بابا کی طرح اڑان بھر سکیں گے اور میں ان کو دیکھ دیکھ کر خوش ہوتا رہتا۔ میں بھی یہ سب کرنا چاہتا تھا ان جیسا بننا چاہتا تھا مگر کوشش کے باوجود نہ کر پاتا۔ رات کو جب ماں کی آغوش میں سوتا تو ماں مجھے بہادر ی اور ہمت کے قصے سنایا کرتی تھی۔ وہ کہتی چی تم کوشش کیا کرو۔ ہمت کیا کرو تم بھی ہم جیسے ہو بس تھوڑتے کمزور ہو لیکن ہمت اور حوصلہ سے انسان ناممکن کو ممکن کر دیتا ہے اور مجھے یقین ہے تم ایسا کر سکتے ہو۔ اور نیند کی وادیوں میں کھونے سے پہلے میں خود کو بہت مظبوط خیال کرتا تھا اور خود سے عہد کرتا تھا کہ کچھ بھی ہو میں ہمت اور حوصلہ نہی ہاروں گا۔
ٍ
میں روزآنہ اسی کوشش میں لگ گیا کہ مجھے گھونسلے کے کناروں پر کھڑے ہونا ہے اور چند کوششوں کے بعد میں اداس ہو گیا کہ میں یہ نہی کر سکتا۔ میں ایک گونے میں بیٹھ کر رونے لگا چا اور چو میرے قریب آ گئے۔ “رونا مسائل کا حل نہی ہوتا چی” چا نے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا۔ “دیکھو میری طرح پر پھیلاوؐ کاندھے کے زور سے خود کو اوپر اٹھاوؐ اور کنارے پر پاوؐں جماؐو” چو نے کر کے دکھایا اور کنارے پر بیٹھ کر میری ہمت بندھانے لگا۔ چا بھی اس کے قریب جا بیٹھا تھا۔ میں نے پھر کوشش کرنے کی ٹھانی اور پانچویں بار میں اپنے بھائیوں کے ساتھ کنارے پر بیٹھا تھا سچ کہا تھا ماں نے حوصلہ اور ہمت کبھی نہی ہارنی چاہیے مسلسل کوشش سے ہم ناممکن نظر آنے والا کام بھی کر سکتے ہیں۔ میں بہت خوش تھا۔ میں واپس گھونسلے میں گیا پھر کوشش کی۔مگر کامیاب نہ ہو سکا۔ لیکن اب مجھے معلوم تھا میں یہ کر سکتا ہوں سو ایک دو کوششوں کے بعد میں کنارے پر بیٹھ جاتا ۔ ماں بابا آیئ تو وہ مجھ سے بھی زیادہ خوش ہوئے جب انہوں نے مجھے گھونسلے کے کنارے پر پر پھیلائے دیکھا۔
ٍ
چند دنوں کے بعد دونوں بھائی ماں بابا کے ساتھ پرواز کرنے لگے تھے۔ ان کی پہلی اڑان بہت خوبصورت تھی۔ انہوں نے گھونسلے سے چھلانگ لگاتے ہی پر پھیلا دئے یکدم وہ نیچے کی جانب جانے لگے انہوں نے اپنے پاوؐں ملایے اور پرون کو اوپر نیچے کر کے ہوا کو تسخیر کرنے لگے۔ بابا نے جیسے سکھایا تھا انہوں نے بلکل ایسا ہی کیا اور کچھ لمحوں کے بعد وہ ہواوؐں کا سینہ چیڑ رہے تھے اور میں ایک بار پھر سوچ رہا تھا کہ کیا میں کر پاوؐں گا۔ بھائیوں کے ساتھ میں بھی پرواز کرنا چاہ رہا تھا مگر ماں نے کہا کہ ابھی مجھے سیکھنا چاہئے۔ والدیں کتنے اچھے اور باخبر ہوتے ہیں کہ اپنے بچوں کے دل کا حال بھی جانتے ہیں۔ میں جانتا تھا کہ شائد میں اڑ نہ پاوؐں۔
ٍ
آج میری باری تھی۔ دو دن سے مجھے سکھایا جا رہا تھا۔ دونوں بھائی اب کم کم آتے تھے اور آ کر کئی قصے سناتے تھے۔ میرا حوصلہ بڑھانے کے لیے وہ بھی موجود تھے۔ ” چی لمبا سانس لو اور کود جاوؐ” ماں نے کہا۔ میں نےساری ہمت جمع کی اور گھونسلے سے چھلانگ لگا دی مگر یہ کیا میرے پر ہوا کے ساتھ مقابلہ نہی کر پائے اور میں قلابازیاں کھاتا ہوا زمیں پر گرا میرے پاوؐں پر شدید چوٹ آئی تھی۔ سب کو ایک لمحے کے لئے جیسے سانپ سونگھ گیا تھا۔ ماں فورا میرے قریب آئی ” میرے چاند کوو زیادہ چوٹ تو نہی آئی” ماں نے میرا جائزہ لیتے ہوئے پوچھا۔ “فکر نہ کرو سب ٹھیک ہو جائے گا” ماں نے میرا حوصلہ بڑھانے کی کوشش کی۔ باقی سب میرے اوپر منڈلا رہے تھے۔ “اٹھو شاباش کوشش کرو” بابا نے پریشان لہجے میں کہا۔ ابھی میں تکلیف برداشت کرتے ہوئے اٹھنے کی کوشش کر رہا تھا کہ دو بچوں کی نظر مجھ پر پڑ گئی۔
ٍ
دونوں مجھے غور سے دیکھنے لگے ماں اڑ کر دیوار پر جا بیٹھی تھی اس کے چہرے پر یکدم پریشانی ہویدا تھی۔ ابھی میں سنبھلنے بھی نہ پایا تھا کہ ایک بچے سے اسکیل سے مجھے دھکا سا دیا دوسرا بچے نڈر معلوم ہوتا تھا وہ مجھے پکڑنے کی کوشش کرنے لگا۔ میں پھدک کر تھوڑا آگے ہو گیا اسی اثنا میں چند اور بچے بھی اکٹھے ہو گئے تھے وہ سب مجھے پکڑنا چاہتے تھے میرے گرد گھیرا تنگ ہوتا جا رہا تھا۔ جان بچانا مشکل لگ رہا تھا۔ کوئی ڈنڈیا مار رہا تھا کوئی پتھر کہ یکدم ایک بچہ لنگڑاتا ہوا آگے بڑھا موت کے خوف سے میں نے آنکھیں بند کر لیں۔ یکدم جیسے مجھے کسی نے دبوچ لیا ہو۔ تکلیف اور مرنے کے احساس نے مجھے گنگ کر دیا تھا کہ وہ بچہ لنگڑاتا ہوا بھاگ گھڑا ہوا۔ قریب ہی ایک گھر کے دروازے کو دھکیلتے ہوئے اندر داخل ہو گیا۔ “اماں اماں” اس نے سانس درست کرتے ہوئے پکارا۔ ماں کو دیکھتے ہی وہ آنسو بہاتا اس سے لپٹ گیا ” اماں اسے کہیں سے پولیو کے قطرے پلوا دو ورنہ یہ میری طرح لنگڑاتا پھرے گا اور روز روز مرتا رہے گا”

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *