Categories
کہانیاں

رکشہ کہانی نمبر۴، نیکی

ٍ
بخشو نے پانی کی بوتل کو منہ لگایا اور گٹا گٹ کئی گھونٹ پی گیا۔ نام تو ااس کا اللہ بخش تھا لیکن بخشو کے نام سے جانا جاتا تھا، آج گرمی کافی زیادہ تھی۔ لو چل رہی تھی اس لئے وہ بچیوں کو لینے جلدی پہنچ گیا تھا۔ اس نے رکشہ سے اتر کر طائرانہ نگاہوں سے پارکنگ میں نگاہ دوڑائی اور ایسی جگہ تلاش کرنے لگا جہاں چھاوؐں ہو۔ اس وقت پارکنگ خالی تھی۔ “ابھی سکول میں چھٹی ہو جائے گی تو کچھ دیر کو یہاں تل دھرنے کو جگہ نہ ہو گی” شہادت کی انگلی سے ماتھے کا پسینہ جھٹکے سے زمین ببوس کرتے ہوئے اس نے سوچا۔ بائیں طرف اسے اونچی دیوار کا سایہ نظر ٓایا۔ اس نے رکشہ چھاوؐں میں کھڑا کیا اور رکشہ کے پچھلے حصے سے کاندھے جوڑ کر آنکھیں موند لی۔ ایک سکون کی لہر اس کے اندر سرایت کر گئی۔ بعض اوقات زندگی میں کچھ لمحے ایسے ہوتے ہیں کہ لگتا ہے کہ اب سکون ہی سکون ہو گا مگر عموما اسیے لمحوں کے بعد ہی پریشانیوں کا آتش فشاں پھٹ جاتا ہے۔
پندرہ سال ہو گئے تھے بچیوں کو سکول چھوڑتے ہوئے۔ ابھی کل کی بات لگتی ہے۔ سرکاری محکمے میں چپراسی کی نوکری کرتے ہوئے گھر کا خرچہ چلانا مشکل تھا۔ ایک غربت اس پر سات بچوں کا ساتھ۔ جب بقایا جات حاصل کر کے نوکری چھوڑنے کی بات چلی تو تو جیسے یہ بخشو کے دل میں تھا۔ صاحب لوگوں کی گالیاں سن سن کر بخشو بھول ہی گیا تھا کہ وہ بھی ایک عزت دار انسان ہے۔ اس نے فورا درخواست دے دی۔ درخواست منظور ہو گئی۔ اس نے کچے کمرے کو پکا کروایا۔ ایک رکشہ خریدا اور دن گزرنے لگے۔ شروع شروع میں کچھ دقت ہوئی پھر سکول اور اکیڈمی لگا لی۔ بڑے خرچے اس سے نکل آتے تھے اور کچھ دیہاڑی لگا کر دن کا خرچہ نکال لیتا تھا۔ اس کی سوچ بھی آہستہ آہستہ رکشہ والوں جیسی ہو گئی تھی کہ دن کا خرچہ پورا ہوا اور گھر کا رخ کیا۔ بچے بڑے ہو گئے تھے بیٹیاں سمندر کے بہاؐو کی سی تیزی سے بڑی ہو چکی تھی۔ بیٹیوں کا خیال آتے ہی باپ کا دل محبت سے لبریز ہو جاتا ہے مگر ساتھ ہی ان کی شادیوں کی فکر اور جدائی آنکھ میں آنسو بھر دیتی ہے۔ بخشو انہی خیالوں میں تھا کہ گاڑی کی بریک لگنے کی زوردار آواز سنائی دی۔ بخشو نے یکدم آنکھیں کھول دی۔
آنکھیں صرف کھلی ہی نہی بلکہ حیرانگی سے پھیل گئیں۔ گاڑی کی فرنٹ سیٹ سے زرمینہ اتر رہی تھی۔ زرمینہ گاڑی سے اترتے ہی سکول کا دروازہ عبور کر گئی۔ گاڑی ایک نوجوان لڑکا چلا رہا تھا۔ بخشو صرف یہ ہی دیکھ سکا کہ اس نے پونی میں بال باندھ رکھے تھے کیونکہ گاڑی گھوم کر واپسی کے لیے مڑ چکی تھی۔بخشو تین لڑکیوں کو سکول لاتا تھا ایک لڑکی کچھ مہینے پہلے آنا شروع ہوئی تھی اور دو پندرہ سالوں سے آ رہی تھیں تینوں بخشو کے لیے بیٹیوں کی طرح تھیں۔ پچھلے پندرہ سالوں میں بخشو ان کے لئے باپ جیسا ہی تھا بچپن کی شرارتوں سے لے کر عزت و احترام تک بخشو نے کئی پل ان کے ساتھ گزارے تھے۔ان کے والدین، قریبی عزیز رشتہ دار اور بچیوں کی زیادہ تر سہیلیوں کے بارے میں کافی معلومات تھیں لیکن گاڑی والے کو وہ نہی جانتا تھا۔
سکول میں چھٹی ہوئی تو تینوں لڑکیاں زرمینہ سمیت یکے بعد دیگرے آ کر سلام کے بعد رکشہ میں بیٹھ گئیں۔ زرمینہ سر جھکائے اپنے موبائل میں مصروف تھی۔ “نہی ! نہی میں غلط سوچ رہا ہوں” بخشو نے رکشہ سٹارٹ کرتے ہوئے سوچا۔بخشو کے دل میں عجیب و غریب خیالات آ رہے تھے۔ وہ زرمینہ کو بیٹی کی طرح سمجھ کر گھبرا رہا تھا۔ خود کو سوچنے سے منع کر رہا تھا۔ ہو سکتا یے سکول کے کام سے گئی ہو۔ لیکن وہ لڑکا واپس کیوں چلا گیا۔ بخشو کا زہن سوال و جواب سے لڑ رہا تھا کہ اسے راحیلہ کی آواز سنائی دی “زرمینہ۔۔۔ زرمینہ آج کل موبائل ہم سے اچھا ہو گیا ہے۔ “ارے نہی بس وہ” زرمینہ نے جھینپتے ہوئے کہا۔ “آج تو ایک بھی پیرئیڈ فری نہی تھی اس لیے تھوڑا تھک گئی ہوں” زرمینہ نے موبائل کو بیگ میں رکھتے ہوئے کہا۔ بخشو کے دل میں شک کے ناگ پھن پھیلا چکے تھے۔ شک بھی کیسا عمل ہے زہن تیز اور سوچ تیز ترین ہو جاتی ہے اور جب بات عزت کی ہو افسوس کے سنبوئیے ڈسنے لگتے ہیں اور بخشو کے ساتھ یہی سب گزر رہا تھا۔
بخشو کو ساری رات نیند نہی آئی کبھی اپنی بیٹیوں کو دیکھتا کبھی زرمینہ کے بارے میں سوچتا۔ اسے ایسا ہی لگ رہا تھا زرمینہ اس کی بیٹی ہی تو ہے۔ نا معلوم کب سے یہ سب چل رہا ہے۔ نہی مجھے اس کے والدیں کو بتانا چاہیے۔ نہی کوئی بات کرنے سے پہلے مجھے کنفرم کرنا چاہئے ایسا نہ ہو کچھ غلط ہو جائے ایسی کوئی بات ہو ہی نا۔ مگر زرمینہ نے سہیلیوں سے جھوٹ کیوں بولا۔اگلے دو دن بخشو جلدی پہنچ جاتا وقت سے بیت پیلے مگر زرمینہ چھٹی کے وقت ہی سکول سے نکلی۔ بخشو نے سکون کا سانس لیا شکر ادا کیا کہ ایسی کوئی بات نہی تھی۔ خود لو لعنت ملامت کرتا رہا کہ اس نے بیٹی پر شک کیا۔ چند دن خاموشی سے گزر گئے۔ سب کچھ معمول کے مطابق چل رہا تھا کہ ایک دن دونوں لڑگیاں چھٹی کے بعد آ گئیں مگر زرمینہ نہ آئی۔ صبح وہ ان کے ساتھ آئی تھی اور کبھی اس کے والدین چھٹی سے پہلے لے جاتے تو فون کر دیا کرتے تھے۔ آج کوئی فون نہی آیا تھا۔ اب تو زرمینہ کے پاس بھی فون تھا لیکن اس نے بھی نہی کیا تھا۔ پارکنگ چھٹی کے دس منٹ کے اندر ہی خالی ہو گئی تھی۔ بخشو کے پاس موبائل نہی تھا جس میں زرمینہ کے گھر کے نمبر تھے۔ راحیلہ زرمینہ کا نمبر ملا رہی تھی مگر بند جا رہا تھا۔ دوسری لڑکی سکول سے ہو آئی تھی اندر بھی نہی تھی۔
بخشو نے رکشہ سٹارٹ کیا ہی تھی کہ وہی گاڑی سکول کے دروازے سے تھوڑی دور تیزی سے آ کر رکی۔ زرمینہ گھبرائی ہوئی نظرئں چراتی رکشہ میں آٓ کر بیٹھ گئی، “گزن ہے مییرا” گھبرائے ہوئےہی اس نے سانس درست کرنے ہوئے کہا۔باقی دونوں لڑکیاں آنکھوں ہی آنکھوں میں اشارے کرنے لگیں۔ بخشو کی سمجھ میں کچھ نہی آ رہا تھا۔ “بیٹا کہاں گئی تھی؟” بخشو نے پیچھے مڑ کر پوچھا اسی اثنا میں گاڑی واپس جا چکی تھی۔ “اپ ا[نے کام سے کام رکھیں” زرمینہ نے تحکم سے کہا۔ بخشو سر جھکا کر رکشہ چلانے لگا مگر دل غصے اور پریشانی سے لبریز تھا اسے ایسا ہی لگ رہا تھا کہ اس نے اپنی بیٹی ہی کو کسی غیر مرد کے ساتھ دیکھا دو آنسو اس کے گالوں سے پھسل کر گم ہو گئے۔
صبح اٹھ کر وہ ایک فیصلہ کر چکا تھا زرمینہ کے والدین کو سب کچھ آگاہ کرنے کا۔ دروازہ بجانے پر زرمینہ کا چھوٹا بھائی آیا۔ “خان صاحب ہیں، مجھے ملنا ہے” بخشو نے کانپتے دل سے کہا۔ لڑکا اسے “بیٹھک” میں بٹھا کر خود اندر چلا گیا۔ ابھی ایک منٹ ہی گزرا تھا کہ اندر سے زرمینہ کے رونے کی آواز بضشو کے کانوں سے ٹکرائی۔ چند لمحوں میں زرمینہ کے ابا، ماموں اور بھائی غصے سے کمرے میں داخل ہوئے۔ان کے پیچھے زرمینہ ماں کے ساتھ آنسو بہاتی داخل ہوئی، “یہ کہ رہے تھے میں نے کچھ بتایا تو مجھے بدنام کر دیں گے” زرمینہ نے روتے ہوئے کہا “زرمینہ نے کل بھی بتایا تھا کہ اس نے الٹی سیدھی حرکت کی تھی۔ “ نے غیرت، بچیوں جیسی ہے تیرے لئے” ماں نے دھاڑتے ہوئے کہا بخشو حیران و پریشان تھا وہ تو نیکی کرنے آیا تھا اس کی سمجھ میں کچھ نہی آ رہا تھا۔ اس نے بات کرنے کی بہت کوشش کی مگر اسے اس کا موقع ہی نہ ملا۔ بخشو کی آنکھ کھلی تو وہ اپنی پامال عزت کے ستھ ہسپتال کے بستر پر دراز تھا”۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *