Categories
کہانیاں

رکشہ کہانی سکستھ روڈ

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

صبح سے کوئی خاص سواری نہی ملی تھی۔ جب سے گیس، پٹرول اور ایل پی جی کی قیمتوں میں تصادم ہوا ہے کرایوں میں اضافہ بھی بے ترتیب ہو گیا ہے۔ گیس والے رکشہ بھی وہی کرایہ مانگتے ہیں جو پٹرول والے رکشہ کا ہے۔ پٹرول والے ایل پی جی (LPG)۔ بہت سارے لوگ تو جانتے بھی نہی ہونگیں کہ ایل پی جی ہے کیا؟ اسے liquid petroleum gas کہتے ہیں یہ وہ گیس ہے جو معدنی تیل (پٹرولیئم) سے حاصل ہوتی ہے اور بطور ایندھن گاڑیوں اور چولہوں میں استعمال ہوتی ہے۔ سلنڈر کے اندر دباؤ کے تحت یہ گیس مائع میں تبدیل ہو جاتی ہے اس لئے اسکا نام LPG ہے اور اسکا سلنڈر سیدھا رکھا جاتا ہے تا کہ مائع کے اوپر کی گیس استعمال ہو سکے۔ یہ مائع جب گیس بنتا ہے تو اسکے حجم میں لگ بھگ ڈھائی سو گنا اضافہ ہو جاتا ہے۔ اسکے برعکس CNG اپنے سلنڈر کے اندر بھی گیس ہی رہتی ہے اور مائع میں تبدیل نہیں ہوتی۔ کرایوں میں اضافے کی وجہ مہنگائی اور مہنگائی میں اضافے کی وجہ ہمارے منتخب کردہ نمائندے۔ کاش ہم ووٹ ڈالتے وقت ایک لمحے کے لئے سوچیں کہ جسے ووٹ ڈال رہے ہیں کیا وہ ہمارے لئے، ہمارے ملک کے لئے اچھا ہے کہ نہی۔ بات دور نکل گئی۔ صبح سے ایک ہی سواری ملی تھی اور اب میں انتظار میں کھڑا تھا۔ دائیں بائیں لاتعداد لوگ آ جا رہے تھے زہن کی حالت بدلنے کے لئے میں نے آتے جاتے لوگوں کا معائنہ شروع کر دیا ابھی ہو سکتا تھا کہ میں اسی میں کھو جاتا کہ اچانک یونیورسٹی کی بس سٹاپ پر رکی۔ دل میں امید جاگی کہ بندیا تیار ہو جا سواری آنے لگی ہے اور واقعی اس سے اترنے والی سواریوں میں سے ایک لڑکی عمر کوئی ہو گی اٹھارہ سے بائیس سال۔ رنگت تھوڑی گندمی لیکن بلا کی پرکشش۔ آنکھیں تھیں کہ کوئی بھی ڈوب ڈوب جائے۔ چال ایسی مستانی کہ کیا میرے رکشہ کی ہو گی۔ وہ جب میرے قریب آئی تو یوں لگا خوشبوؤں کی کشش مجھے کھینچنے لگی ہے۔

“th6 روڈ جائیں گے ” اس نے ایک ادائے دلبری سے پوچھا۔
دل تو چاہا کہ کہہ دوں کہ کون نہی چاہے گا آپ کو لے جانا۔ لیکن پھر اپنی اوقات یاد آ گئی۔ ہوش کر بندیا رکشہ ڈرائیور ہے تو۔ روزی روٹی کما تو کن چکروں میں پڑنے لگا ہے۔ لیکن دل تو دل ہی ہوتا ہے چاہے رکشہ ڈراہئور کا ہو یا صدر پاکستان کا۔ خواہشیں تو یہ نہی دیکھتی کہ دل پر جامہ کون سا ہے۔
“جی جی بی بی جی” میں نے ادب سے کہا۔
کتنا کرایہ ہو گا؟ اس نے بالوں کی لٹ کو چہرہ چومنے سے روکتے ہوئے کہا۔

یہی کوئی جی 120 روہئے دے دیں میں نے بغیر جھجھکے کہا۔ اس نے فون کان پر لگایا اور بولی 120 مانگ رہے ہیں۔ یہ لیں بات کریں جو جگہ بتائیں وہاں جانا ہے۔

میں نے فون اس سے لیا تو اس کی انگلیوں کا کرنٹ میرے جسم پر یوں لگا جیسے نئی نئی جوانی آنے پر کپڑا بھی چھو جائے تو انسان محسوس کرتا ہے۔ اف! یہ وقت رک کیوں نہی جاتا۔ فون کو میں نے کان سے لگایا تو سرگوشیاں کرنے لگا۔ لیکں تراخ کی آواز نے ساری نغمگی دھول کر دی۔ th6 روڈ لے آئیں اور کرایہ 100 روپئے ہو گا۔

“جی جناب” میں نے فون واپس کیا اس طرح کہ کرنٹ کا جھٹکا دوبارہ محسوس ہو۔ اور وہی ہوا تماما جسم ایسا لگا کہ ہلکا پھلکا ہو گیا ہو اور آسمان کی وسعتوں میں کھو رہا ہو۔

رکشہ سٹارٹ کر کے میں چل پڑا اور جب بھی موقع ملتا رہا میں شیشے میں اس موہنی صورت کا دیدار کرتا رہا۔ دل تو چاہ رہا تھا کہ سفر ختم ہی نہ ہو لیکن th6 روڈ آگیا۔ th6 آنے پر رکشہ روکا۔ th6 روڈ آ گیا ہے۔ میں نے بڑے ادب سے کہا۔

اس نے رکشہ کے اندر بیٹھے بیٹھے باہر دائیں اور بائیں دیکھا دور دور تک کوئی نہی تھا۔ “نہی نہی۔۔۔۔یہ th6 روڈ نہی ہے” اس نے کچھ غصے اور خوف سے کہا۔

“یہی th6 روڈ ہے” آپ نے آگے کہاں جانا ہے۔ میں نے پھر بڑے ادب سے کہا

یہ th6 روڈ ہے۔ اس نے گہری سوچ میں ڈوبے ہوئے خود کلامی کی۔ پھر وہ کیوں نہی آیا۔ مجھے واپس یونیورسٹی بھی جانا ہے۔ فون نکالا اور نمبر ملانے لگی۔ لیکن نمبر لگ نہی رہا تھا۔

“کیا یہ واقعی th6 روڈ ہے” اس نے یقینی اور ہچکچاتے ہوئے پوچھا۔ کوئی اور بھی ہے th6 روڈ۔

“نہی بی بی جی” یہی ہے ایک ہی۔ میں پریشان ہو گیا کہ شائد کوئی مسلہ ہے۔ کہ اچانک دور سے ایک شخص منحنی سے جسم کا شکل پر بارہ بچے ہوئے، ایک بار دیکھ کر دوبارہ دیکھنے کی خوایش نہ ہو آتا دکھائی دیا۔ اس پر نظر پڑتے ہیں ہو چلائی ہاں ہاں یہی th6 روڈ ہے یہی th6 روڈ ہے۔ اور جیسے بہت خوش ہو گئی۔ اور میں حیران تھا اسے کیا ہوا۔

وہ شخص رکشہ میں بیٹھا اور قریب گلی میں جانے کے لئے کہا۔ لڑکی بے پھر ادائے دلبری سے اس شخص سے مخاطب ہوئی۔ تم نے دیر کیوں کر دی۔ پیمنٹ کر دو پہلے اور مجھے چلدی جانا ہے۔ اس شخص نے جیب سے پرس نکالا اور کچھ رقم اس کو دے دی۔ ایک گھر کے قریب جسے تالہ لگا ہوا تھا رکشہ روکا اور ایک سو پچاس نکال کے مجھے دئے اور بولا عیش کریں۔ اور خود تالا کھول کر لڑکی سمیت اند گم ہو گیا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *