Categories
کہانیاں

عمل شیطان

رات کے دس بجے تھے۔ میں اپنے کمرے میں دکھ کی چادر اوڑھے اداسی کی شاہراہوں پر محبت کے آنسو بہا رہا تھا۔ میرا ہم حجرہ بے سدھ سو رہا تھا۔ اسے سونا ہی چاہئے تھا کیونکہ وہ کون سا محبت میں ہارا ہوا شخص تھا۔ اس کے دل پر کون سے درد و غم کے پہاڑ ٹوٹے تھے۔ آج معلوم ہو رہا تھا کہ جس تن لاگے وہ تن جانے کا مطلب کیا ہے۔ دل کے زخم کسے کہتے ہیں۔ بغیر کسی ظاہری چوٹ کے دل خون کے آنسو کیسے روتا ہے۔ آج آنسوؤں کی ایسی جھڑی لگی تھی کہ میری شرٹ کے کالر تک بھیگ گئے تھے۔ مجھے زندہ رہنے کا کوئی حق نہی۔ میں فریحہ کے بغیر کیسے رہ سکتا ہوں۔ میری سانوں کی ڈور تو اس کی مسکراہٹ سے بندھی ہے۔ اور کیا میں اس کی مسکراہٹ کبھی نہی دیکھ سکوں گا۔ زندہ لاش بن کر رہتے کا تصور ہی بڑا جان لیوا تھا۔ جتنا میں اسے بھولنے کی کوشش کر رہا تھا یاد کے سنپولئے اتنا زیادہ مجھے ڈس رہے تھے۔ زندہ لاش بن کر رہنے سے بہتر ہے مجھے مر جانا چاہئے۔ نہی میں اس کے بغیر نہی رہ سکتا۔ نہی رہ سکتا۔ میں نے منہ پر پڑی چادر اتار پھینگی۔ اندھیرے ناگ زندگی کو زہر آلود کرنے لگے۔ اور میں سوچنے لگا کہ کیسے مرا جائے۔ فریحہ کےلئے جان کسیے دی جائے کہ اسی اثنا میں کمرے کا دروازہ کھٹکا۔
میں شش و پنچ میں پڑ گیا۔ زہن جو ہجر و مصیبت کی بھول بھلیوں میں دھکے کھا رہا تھا یک دم واپس دنیا میں آ گیا۔ چہرے کو میں نے دونوں ہاتھوں سے صاف کیا اور دروازہ کھول دیا۔ سامنے عدیل کھڑا تھا۔ میں جو چند لمحوں کے لئے سب کچھ بھول گیا تھا۔ عدیل کو دیکھ کر زخموں کے منہ سے پھر خون رسنے لگا تھا۔ میرے بس میں ہوتا تو شائد میں عدیل کو گولی مار دیتا۔ عدیل بھی شائد بھانپ گیا تھا۔ اس نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ ایک لفافہ میری طرف بڑھایا۔

“ضرور آنا” اس نے مصافحے کے لئے ہاتھ اگے بڑھایا۔ ہمیشہ کی طرح میں ایک لفظ بھی نہ بول سکا۔ جیسے میری زبان گنگ اور جسم پتھر کا ہو گیا ہو۔ وہ جا چکا تھا اور میں دروازے پہ کھڑا بے جان بت کی طرح تب تک ساکت رہا جب تک عدیل نظروں سے اوجھل نہی ہو گیا۔ لفافے کو کھولا تو اس پر چلی حروف سے “شادی مبارک” لکھا تھا۔ تو عدیل اور فریحہ کی شادی کا وققت آ گیا۔ میں نے غصے میں لفافے کو کارڈ سمیت دیوار پہ دے مارا۔ دونوں ہاتھوں سے سر پکڑ کر میں بستر پر گر گیا۔ ایک بار پھر آنسو میری آنکھوں سے نکل کر میرے گال بھگونے لگے۔ دل کے زخم پھر سے تازہ ہو گئے تھے اور میں دوبارہ مرنے کے طریقے سوچنے لگا۔ کہ نجانے کب میری آنکھ لگ گئی۔

یکدم مجھے ایسا محسوس ہونے لگا جیسے بہت سارے پرندے میرے جسم پر پھڑپھڑا رہے ہیں۔ سنسنی کی ایک تیز لہر میرے جسم میں دوڑ گئی۔ کیا میں مر گیا ہوں؟ خوابیدہ زہن میں سوال ابھرا۔ اس سے پہلے کہ میں مکمل ہوش میں آتا میری آنکھ کھل گئی۔ میرے سارے جسم کو جیسےبڑی بڑی سیاہ پروں والی چمگادروں نے ڈھانپ رکھا تھا۔ میں نے غیر ارادی طور پر ہاتھ پاؤں جھٹکے اور اٹھ کر بیٹھ گیا۔ جتنا میں ان کو اپنے سے دور کر رہا تھا نہ صرف ان کے پروں کی پھرپھڑاہٹ بڑھتی جا ر ہی تھی بلکہ ان کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ میرے زہن کے نہاں خانوں میں بس ایک ہی بات تھی کہ اب یہ میرا سارا خون چوس جائیں گی۔ میں کمرے میں بھاگ دور رہا تھا۔ اور چمگادڑیں اسی رفتار سے بڑھتی جا رہی تھیں کچھ میرے ساتھ چپکی ہوئی تھیں، کچھ کمرے میں دائرے کی صورت میں چکر کاٹ رہی تھیں۔ کمرہ ہلکےہلکے اندھیرے میں ہیبتناک صورت پیش کر رہا تھا۔ میں نے کوشش کی کہ کھڑکی سے باہر چھلانگ لگا دوں۔ ساتھ ساتھ میں چمگادڑوں کو ہاتھ سےدور کرنے کی کوشش کر رہا تھا اور کھڑکی کی طرف بڑھ رہا تھا۔ عجیب بات یہ تھی کہ وہ میرا خون نہی چوس رہی تھیں لیکن خوف سے میری گھگھی بندھی ہوئی تھی۔ ایک ایک قدم مجھے ایک من کا لگ رہا تھا۔ آخر کار میں کھڑکی تک پینچنے میں کامیاب ہو گیا۔ اس سے پہلے کہ میں کھڑکی پر چڑھتا۔ سیاہ کالی بلیوں کا ایک جم گفیر کھڑکی کے راستے اندر داخل ہو گیا۔

میں جیسے چمگادڑوں اور بلیوں میں گھر گیا تھا۔ رات کی سیاہی جیسے بڑھ گئی تھی۔ پڑوں کی پھڑپھڑاہٹ اور گول گول گھومتی گول آنکھوں نے مجھے چند لمحوں کے لئے ساکن کر دیا تھا۔ میری سمجھ نہی آ رہی تھی کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ اوپر کا سانس اوپر اور نئچے کا نیچے رہ گیا تھا۔ میرا کمرہ چمگادڑوں اور بلیوں سے بھرتا جا رہا تھا۔ میرا دم گھٹنے لگا تھا سانس لینا مشکل ہوتا جا رہا تھا نجانے مجھ میں کسیے اتنی ہمت آ گئی کہ میں دروازے کی ظرف دوڑ پڑا۔ میرے پاؤں کے نیچے کئی بلیاں اور چمگادڑیں آ رہی تھیں ان کے خون کی چپپچپا ہٹ سے فضا میں عجیب سی سڑاند محسوس ہونے لگی تھی۔ دروازہ لگ رہا تھا بہت دور ہو گیا ہے میرے چہرے پر بدبودار خون کی چھینٹے پڑ رہے تھے۔ کچھ بلیاں اور چمگادڑیں کمرے میں چلنے والے پنکھے کی زد میں آ گئی تھی۔ مجھے ہوش آ رہا تھا سب سے اہم بات میرے زہن میں یہ تھی کہ دونوں مجھے نقصان نہی پہنچا رہی تھیں۔ اس لئے میں نے سوچا کہ مجھے یہاں سے دور بھاگ جانا چاہئے۔ بہت دور۔ زندگی سے دور۔ زندگی کی مصیبتوں سے دور۔ فریحہ اورعدیل سے دور۔

جیسے ہی میں کمرے کے دروازے کے قریپ پہنچا، میرے سامنے دروازے پر جیسے فلم چلنے لگے تھی۔ دروازے پر وہ منظر میرے سامنے تھا جب میری پہلی بار فریحہ سے ملاقات ہوئی تھی۔ میں میتھ ڈپارٹمنٹ میں آنے کے لئے آرٹس ڈپارٹمنٹ سے گزر رہا تھا لیڈیز روم کا دروازہ کھلا اور دھڑام سے میرے چہرے سے ٹکرایا۔ میں جو اپنی دھن میں آگے کی جانب بڑھ رہا تھا دروازہ مجھ سے ٹکرا کر دوبارہ وااپس اسی رفتار سے جس سے ٹکرایا وہ فریحہ تھی۔ ہم دونوں کی آنکھیں ملی۔ گہری سبز آنکھوں نے جیسے جادو کر دیا۔ درد اور وحشت محبت کی گود میں ہلکارے بھرنے لگی۔ فریحہ نے نقاب درست کیا اور ہم دونوں نے یک زبان ہو کر کہا “سوری”۔ وقت شائد ہمیں ملانا چاہتا تھا کہ پے در پے ہمارا آمنا سامنا ہونے لگا۔ کبھی لائبریری میں، کبھی یونیورسٹی آتے ہوئے، کبھی واپس پوائنٹ کی طرف جاتے ہوئے کہ چند دنوں میں ہم یک جان اور دو قالب ہو چکے تھے۔ ہماری محبت چودہویں کا چاند بن گئی تھی۔ ہم شائد ہی ایک دوسرے کے بغیر اب رہ سکتے تھے۔ محبت منصوبے بہت بناتی ہے اور ہم کبھی اس جگہ کبھی اس جگہ بیٹھ کر منصوبے بنا رہے تھے۔ منظر غائب ہو چکا تھا کیونکہ دروازہ یکدم کھل گیا تھا چھوٹے سے دروازے سے ایک دیو نما مخلوق اندر داخل ہونے کی کوشش کر رہی تھی۔ ساری بلیاں اور چمگادڑیں سجدہ ریز تھی۔ کچلی گئی بلیوں اور چمگادڑوں کا خون خود بخود اڑ اڑ کر اس مخلوق کی نکلی ہوئی لمبی زبان میں جزب ہو رہا تھا۔ “یا خدایا” میری زبان سے بلا ارادہ نکلا۔ یہ کہنا تھا کہ دیو نما مخلوق نے اپنی زبان سے مجھے اچھالا کہ میں دیوار پر جا لگا۔ دیوار سے چپکی چمگادڑیں کچھ پھڑپھڑا کر ادھر ادھر ہوگئیں اور کچھ مئرے جسمکے ساتھ چپک گئیں۔ قلابازیاں کھاتے ہوئے میں زمیین پر سجدہ ریز بلیوں کے اوپر گڑا۔ بدبودار خون سے میرے کپڑے رنگین ہو چکے تھے۔ دیو نما مخلوق نے مجھے چاٹنا شروع کیا۔ اور یکدم مجھے اپنین زبان میں لپیٹا اور باہر نکل گیا۔ کوریڈور بھیڑیوں سے بھرا ہوا تھا جو اپنے نوکیلے دانتوں سے عجیب و غریب آوازیں نکال رہے تھے میں نے آخری بار کا سوچ کر فریحہ کا نام لیا اور آنکھیں بند کر لیں کہ اب یا تو وہ دیو نما مخلوق مجھے کھا جائے گی ورنہ میں ضرور بھیڑیوں کی خوراک بنوں گا۔ جن کے نوکیلے دانت یوں چمک رہے تھے جیسے صدیوں سے انہوں نے کچھ نیہ کھایا اور آنکھیں مسرت سے جگمگا رہی تھیں جیسے بہت عرصے کے بعد انہیں کھانے کو کچھ ملے گا۔
آہستہ آہستہ میں نے آنکھیں کھولیں تو سامنے دو رویہ قطاروں کے درختوں پر پتوں کی جگہ خون کی ڈوبی گردنیں لٹک رہی تیھں ان کی گردنیں ایسے جھکی ہوئی تھیں جیسے دیو نما مخلوق ان کا آقا ہو۔ آگے اگے بھیڑئے اور پیچھے پیچھے بلیاں چل رہی تھیں بلیوں کے اوپر چمگادڑیں اڑ رہی تھیں یہ سب مل کر ایسا ماحول بنا رہتے تھے جیسے کسی خوفناک سی بستی ہو جبکہ ہوسٹل سے ڈھابے کی طرف جانے والی سڑک کہیں کھو سی گئی تھی۔ میں ابھی تک زبان میں لپٹاہوا تھا کہ ڈھابے کےاوپر لگے بورڈ پر دوبارہ منظر جلوہ افروز ہو رہا تھا۔ ہر شے ساکن ہو گئی تھیں اور میں اور فریحہ یونیورسٹی سے گزرنے والی ندی کے کنارے بیٹھے ہوئے تھے۔ مجھے سب کچھ یاد آ رہا تھا۔ وقت جیسے پیچھے چلا گیا تھا۔

“فریحہ” میرے لہچے میں جیسے پیار کی برسات تھی جس میں فریحہ بھیگ بھیگ جاتی تھی۔ اس کا ہمیشہ اصرار ہوتا پھر کہو نا فریحہ۔ اس نے میرے ہونٹوں پر ہاتھ رکھ دیا۔ کچھ نہ کہو دیکھو منظر کتنا حسین ہو رہا ہے۔
“تمہے تو ہر منظر حسین لگتا ہے جب میرے ساتھ ہو۔ چاہے وہ جون کی گرمی ہی کیوں نہ ہو” میں نے اس کے ہاتھوں کو چومنے ہوئے کہا۔ اس نے اپنے ہاتھ کھینچ لئے اور ہمیشہ کی طرح مجھے گھورنے لگی ۔
میں نے جیب سے انگوٹھی نکالی اور پیار بھری نگاہوں سے فریحہ کو دیکھا۔ “یہ کیا ہے؟” فریحہ نے تجسس سے پوچھا۔ آج میں قسم کھاتا ہون کہ مجھے تم سے محبت ہے اور میں اس محبت کو ہمیشہ کےلئے حاصل کرنا چاہتا ہوں۔ میں نے انگوٹھی پہناتے ہوئے اسے کہا۔ آج سے تم بس میری ہو۔
اس نے سر میرے کندھے پر رکھ دیا۔ میں نے اس کے بالوں پر بوسہ دیا۔ اس کے ہاتھوں پر اپنے ہونٹؤں کی مہر ثپت کی۔ اور پھر نجانے کیا ہوا۔ وقت جیسے تیز ہو گیا۔ مجھے ہوش نہ رہا اور میں بڑھتا گیا۔ فریحہ روکتی رہی میں اصرار کرتا رہا۔ ندی کا کنارہ اور درخت جس کے نیچے ہم بیٹھے تھے ہماری محبت کا گواہ بن رہا تھا کہ اچانک درخت کےپیچھے سے عدیل آ گیا۔ جتنی دیر میں میں نے اپنے کپڑوں کو درست کیا فریحہ اتنی دیر میں عدیل کے ساتھ جا چکی تھی۔

ہوا میں اچھلتے ہی جیسے یکبار منظر کہیں کھو گیا۔ اب میں چمگادڑوں کے اوپر فضا میں تھا اور چمگادڑیں مجھے نوچنے لگی تھیں مجھے ایسا لگ رہا تھا میرے جسم کا خون نچڑتا جا رہا ہے۔ بلیوں نے رونا شروع کر دیا تھا اور بھیڑئے غرا رہے تھے۔ درختوں سے لٹکی کھوپڑیاں اونچے اونچے قہقہے لگا رہی تھیں۔ موت میرے سامنے تھی۔میں تو ویسے بھی مرنا چاہتا تھا۔ کاش آخری بار میں فریحہ سے مل سکتا یہ سوچنا تھا کہ چمگادڑوں نے مجھے نیچے پھینک دیا مردہ لاش کی طرح اب میں بلیوں پر سواری کر رہا تھا خون کے بعد اب میرا گوشت کم ہوتا جا رہا تھا میں آہستہ آہستہ مر رہا تھا۔ نیم وا آنکھوں سے میں نے دیکھنے کی کوشش کی اور زور سے پکارا فریحہ۔ دور دور تک لگتا تھا کوئی بھی نیی سوائے خوف کی چادر کے۔ بلیاں چلنا رک گئین تھیں میں تو ندی کنارے درخت کے نیچے زمیں پر لیٹا تھا۔ اور درخت سے لٹکی کھوپڑیاں میرے قریپ ہوتی جا رہی تھیں کہ ایک کھوپڑی نے اپنا دہانہکھولا اور میرے سامنے فریحہ اور عدیل ڈپارٹمنت کے سامنے بیٹھے تھے۔ میں لرزتے قدموں کے ساتھ ان کے قریب گیا۔ یمہشہ کی طرح میری زبان گنگ ہو گئی تھی نجانے عدیل میں ایسا کیا جادو تھا۔ کچھ عرصہ پہلے ہی فریحہ نے بتایا تھا کہ اس کا داخلہ اس کی کلاس میں ہوا ہے اور وہ اس کا بہت اچھا دوست ہے۔ بہت خیال رکھتا ہے۔ مجھے دیکھ کر عدیل نے غصے سے گھورا میں سر سے پاؤں تک کانپ گیا تھا۔ اور اٹھ کر کچھدور جا کر کھڑا ہو گیا تھا۔ میں فریحہ کے پاس بیٹھ گیا۔ چند لمحے ہم دونوں خاموش رہے آخر میں نے کانپتے لہچے میں کہا “میں معافی مانگوں بھی تو تمہے مجھے معاف نہی کرنا چاہے۔ مجھے ایسا نیہ کرنا چاہئے تھا” ابھیمیں یہ ہی کہ پایا تھا کہ آنسو میرے آنکھوں سے رراں تھے میں معافی مانگنا چاہ رہا تھا میں نے دیکھا کہ فریحہ بھی رو رہی تھی شائداس نے مجھے معاف کر دیا تھا اس سے پہلے کہ میں کوئی اور بات کرتا۔ عدیل واپس آ گیا۔ میں بہت کچھ کہنا چاہتا تھا لیکن عدیل نے یکدم میرا ہاتھ پکڑا مجھے ایسا لگا کسی مظبوط سانجے میں میرا ہاتھ آ گیا ہو۔ “دفعہ ہو جاؤ اور پھر کبھی فریحہ سے ملنے کی کوشش نہ کرنا” اس نے پھنکارا۔

میں نے بھیگی آنکھوں سے فریحہ کی طرف دیکھا۔ جیسے وہ بھی مجھے کچھ کہنا چاہ رہی تھی کہ اس نے عدیل کی طرف دیکھا اور سر جھکا لیا۔ میں واپس لٹے ہوئے دل کے ساتھ ہوسٹل کے کمرے میں آ گیا۔ کمرے کا دروازہ بند ہوتے ہی وہ دہشت ناک دہانہ خون سے بھر گیا۔ میں جیسے گندگی سے بھر گیا میں اٹھا اور پچھلے قدموں بھاگنے لگا کہ اچانک ایک پتھر سے ٹکرایا اور زمین بوس ہو گیا۔ میرے سامنے آسمان نہی فریحہ تھی دلہن کے لباس میں وہ خوبصورت لگ تہیتھی لیکن اس کی آنکھوں میں اداسی کا سمندر ٹھاٹھیں مار رہا تھا جیسے کہ رہا ہو۔ ہمت ہے تو میری آنکھوں کی مسکراہٹ لوٹا دو۔ میں نے اٹھنے کی کوشش کی کہ فریحہ کاہاتھ پکڑ لوں۔ ہاتھ میرے ہاتھوں میں آیا اس نے وہی انگوٹھی پہن رکھی تھی جو میں نے اسے پہنائ تھی کہ اچانک پھر عدیل اس کے آگے آ گیا۔ انگوٹھی میرے ہاتھ میں رہ گئی اور فریحہ عدیل کے پیچھے چلی گئی۔ آج میں تمہے چھوڑوں گا نہی۔ میں نے پختہ ارادہ کیا۔ جس پتھر سے ٹکرا کر میں گرا تھا وہی میں نے اٹھایا اور ہمت کر کے عدیل کو دے مارا۔ عدیل آگے سے ہٹ گیا اور پتھر فریحہ کے سر پر جالگا۔ فریحہ کےسر سے خون بہ رہا تھا اور وہ لمحہ لمحہ مر رہی تھیں اور میں کچھ نہی کر سکتا تھا۔

آنکھ کھلی تو کمرہ دن کی روشنی سے بھرا ہوا تھا۔ میرا ہم حجرہ شائد ڈپارٹمنٹ جا چکا تھا۔ زہن میں ہلچل تھی کیا حقیقت کیا افسانہ۔ کیا میں نے کوئی خواب دیکھا تھا؟ شائد۔ یہی سوچ کر جلدی جلدی تیار ہو گر فریحہ کے ڈپارٹمنٹ میں پینچا۔ وہاں سب سوگوار تھے۔ فریحہ کو کسی نے رات کو مار ڈالا۔ میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ فریحہ نہی مر سکتی۔ نہی ایسا نہی ہوسکتا۔ ایسا نہی ہو سکتا۔ مجھے یاد آیا کہ جو کپڑے پہن کررات میں سویا تھا صبح وہ نہی تھے۔ میں بھاگتا ہوا اپنے کمرے میں واپس آیا۔ جلدی جلدی میں نے سامان ادھر ادھر کیا۔ کھڑکی کے نیچے میز پر وہ کپڑے پڑے تھے میں نے انہیں اٹھایا تو اس کی جیب سے خون رس رہا تھا۔ جیب میں ہاتھ ڈالا تو اس میں وہی انگوٹھی تھی جو فریحہ کو میں نے پہنائی تھی۔ کیا خواب نہی حققیت تھا۔ یہی سوچتے ہوئے میرے دل میں عدیل کا خیال آیا۔ میں تیزی سے دوڑتا ہوا فریحہ کے ڈپارٹمنٹ میں پینچا میرا سانس دھونگی کی طرح چل رہا تھا۔ “عمیر ! عمیر ” میں نے فریحہ کےکلاس فیلو عمیر کو آواز دی۔ عمیر نے آ کر میرے کندے پر ہاتھ رکھا اور افسوس کرنے لگا۔ “وہ عمیر عدیل کہاں ہے؟” میں نے کانپچی ہوئی آواز میں پوچھا۔ “عدیل! کون عدیل” عمیر نے حیرانگی سے پوچھا۔ “تمہارا کلاس فیلو” میں نے بے صبری سے کہا۔ “ہمارا تو ایسا کوئی کلاس فیلو نہی” عمیر نے دوبارہ حیرانگی سسے کہا۔
میں سر پکڑ کر وہی کاریڈور بیٹھ گیا۔ کہ اچانک سامنے کی جھاڑیوں سے سر سراہٹ محسوس کر کے میں نے سر اٹھایا تو سامنے دو کالی بلیاں سبز آنکھوں سے مجھے گھور رہی تھیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *