Categories
بیتی

پیارے اللہ جی

السلام علیکم۔

میں خیریت سے نہی ہوں۔ خیریت سے ہوتا تو شائد ہی آپ کی یاد آتی۔ امید کرتا ہوں آپ بخیریت ہونگیں۔

دیگر احوال یہ ہے کہ برسوں بیت گئے بلکہ مجھے تو ایسا لگتا ہے صدیاں بیت گئیں آپ نے میرا حال تک نہ پوچھا۔ سنتے آئے ہیں کہ آپ شہ رگ سے بھی زیادہ نزدیک ہیں مگر میرے پاس رہتے ہوئے بھی آپ نے کبھی اظہار نہی کیا۔ کیا ساری زندگی میں ہی آپ سے باتیں کرتا رہوں گا? لوگ کہتے ہیں کہ آپ ہر شے میں ہیں۔ میں ہر شے کو گھور گھور کر دیکھتا ہوں اور پھر گھبرا کر بیٹھ جاتا ہوں۔ مجھے آپ کیوں دکھائی نہی دیتے۔

جب میں چھوٹآ تھا تو پریشان ہوتا تھا۔ آپ کو تو معلوم ہی ہو گا پریشان کیوں ہوتا تھا کیونکہ آپ تو دلوں کے بھید جانتے ہیں۔ آپ تو سب جانتے ہیں۔ کہ میں کس طرح یہ سوچتے ہوئے گھبراتا تھا کہ آپ کیسے ہیں۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میں نے ابا سے پوچھا تھا کہ ہمیں کس نے بنایا۔ سکول سے پڑھ کر آیا تھا۔ ابا نے فورا کہا “اللہ تعالی” نے۔ تبھی جب میں نے فورا پوچھا کہ اللہ تعالی کو کس نے بنایا۔ تو انہوں نے بات گول کر دی۔ تب سے لے کر اب تک میں ہر کسی سے پوچھتا ہوں لیکن کوئی جواب نہی دیتا۔ سب کہتے ہیں کہ ایسی باتیں نہی سوچتے۔ اور میں کہتا ہوں کہ سوچ میری اپنی کہاں ہے ۔ میرا تو کچھ بھی اپنا نہی۔ اس میں آپ اپنی طرف سے اضافہ کر دیں گے تو آپ کے خزانے میں کون سی کمی آئے گی۔ تو براہ مہربانی اس خط کے جواب میں میری قسمت اچھی کریں اللہ جی۔

میرا علم مجھے اندیکھے پر یقین کرنے سے منع کرتا ہے۔ لیکن کیا انکار نہی کر سکتا کیونکہ مجھے بہت کچھ معلوم نہی تو اس کا مطلب یہ تو نہی کہ وہ ہے ہی نہی۔ آپ سے میرا پہلا تعارف تو گھر سے ہوا۔ پھر سکول سے۔ لیکن میں آپ کو کبھی نہی سمجھ سکا اور یقینا کبھی سمجھ نہی سکوں گا کیونکہ جو ادراک میں آ جائے گا وہ اللہ نہی ہو سکتا۔ پھر میں آپ سے ناراض ناراض رہنے لگا۔ میں سوچتا تھا کہ نہی کچھ نہی ہے۔ مجھے کبھی بہلایا گیا کہ دیکھو چرخہ کاٹتے کبھی دیکھا ہے۔ چرخہ کبھی خود بخود نہی چل سکتا جب تک کہ اسے چلانے والا نہ ہو۔ پھر اتنی بڑی کائنات کیسے خودبخود چل رہی ہے۔ کوئی تو ہے جو نظام ہستی چلا رہا ہے۔ وہی اللہ ہے۔ لیکن اس میں کا کیا کروں۔ حیل و حجت سے باز نہ آیا۔ پھر سمجھایا گیا۔ کہ میری حد تو یہ بھی نہی کہ میں اپنی پلکوں کو دیکھ سکوں تو اسے کیسے دیکھ سکتا ہوں۔ “میں” پھر بھی باز نہ آیا۔ پھر منطق سے میری عقل کے پردے صاف کئے گئے کہ دیکھو اللہ کو مانو گے یا نہی مانو گے۔ اور اگر تم نہی مانو گے اور مرنے کے بعد وہ ہوا تو سوچو کہ انجام کیا ہو گا۔ اور اگر مانو گے اور وہ ہوا تو سوچو انجام کیا ہو گا۔ لیکن عقل تو فریب دینے میں ماہر ہے۔ وہ کیسے مان لیتی۔ ہاں میرے اندر سے یہ ضرور اواز اٹھتی ہے کہ ضرور کوئی ہے ورنہ میں جیسا چاہوں صرف ویسا ہی ہو۔ کیا یہ آپ ہوتے ہیں اللہ جی۔

یہ “میں” ہی ہے جس نے مجھے بہت تنگ کیا ہوا ہے۔ میری آنکھیں، میری سانسیں، میری باتیں، میرا وجود اور میری سوچ کچھ بھی تو میرا نہی۔ پھر یہ میں کہاں سے آ گئی۔ آپ کہتے ہیں کہ جو مجھے مل گیا اس کا شکر ادا کروں اور جو نہی ملا اس کے بارے میں پریشان نہ ہوں۔ میرے پیارے اللہ جی کسے کروں یہ سب۔ میں کتنی قناعت کروں۔ آپ نے بھوک دی اب اس کا پالن تو کرنا پڑے گا۔ آپ نے پیاس دی اب وہ تو بچھانے پڑے گی یہی تو مشیت ہے اور لاکھ کوشش کے باوجود نہ پیٹ بھر سکا نہ پیاس بچھ سکی۔بھوک اور پیاس صرف خوفاک اور پانی کی نہی ہے اللہ جی پیاس تو ہر شے کی ہے۔ ہر شے جو مجھے اچھی لگے۔ ہر شے جو مجھے سوچنے پر مجبور کر دے۔ ہر شے جو میرے اندر سوال اٹھائے۔ “مجھے” کہتے ہوئے پھر دل گھبراتا ہے کہ میرا تو کچھ بھی نہی سب تو آپ کا ہے پھر میں کس پر غرور کروں۔ کس بات پر اکڑوں۔ نہ پیدا ہونا میری خواہش تھی نہ مرنا میری خواہش۔

ہاں روز روز مرنا مجھے خوب آتا ہے۔ کبھی اپنی خواہشوں پر۔ کبھی اپنے سے منسلک زندہ خوابوں کے جنازوں پر۔ کبھی چلتی ہوئی امید کی چتا پر۔ کبھی دفن ہوتی آرزؤں پر۔ کبھی سوال در سوال بکھرتی اجڑتی لکیروں پر۔ خواب دیکھتے دیکھتے آنکھیں اندھی ہونے لگی ہیں۔ مگر تعبیر کہیں نظر نہی آتی۔ سب کہتے ہیں کہ اللہ کا لکھا ہے سب۔ اللہ جانتا ہے سب۔ اللہ قوت خرید سے زیادہ دکھ نہی دیتا۔ مگر یہ کیسے ہوتا ہے اللہ جی کہ میں روز ٹوٹتا ہوں روز لمحوں میں تقسیم ہوتا ہوں کہا یہ آپ ہیں جو مجھے واپس جوڑ دیتے ہیں۔ جو مجھے وقت کے سپرد کئے ہوئے ہیں بتائے نا۔ آپ نہی بتائیں گے تو کون بتائے گا۔ کس کے پاس جاؤں کس سے مدد مانگوں۔ مجھے تو آج تک تقدیر کا کھیل سمجھ نہی آیا تبھی میں ہر ناکامی اور کامیابی تقدیر کے کھاتے میں ڈال دیتا ہوں۔ یقینا آپ سب جانتے ہیں کیونکہ آپ مجھے گمراہ نہی ہونے دیتے۔

کبھی کبھی میں سوچتا ہوں۔ آپ کی آنکھیں ہوں تو آپ کو معلوم ہو آنسو کسے کہتے ہیں۔ آپ کے کان ہوں تو آپ کو معلوم ہو درد کی آواز کیسی ہوتی ہے۔ آپ کا دل ہو تو آپ کو معلوم ہو خواب کیتے بکھرتے ہیں۔ آپ کا وجود ہو؟ بس یہاں آ کر مجھے بریک لگ جاتی ہے میں رک جاتا ہوں گھبرانے لگتا ہوں۔ کہ آپ کیسے ہیں؟ میری حد تو بس اتنی ہی ہے لیکن آپ کیسے میری حد کے اندر جلوہ فگن ہو سکتے ہیں کہ آپ تو اس سے باہر ہیں۔ مجھے آپ سے ملنے کا بہت اشتیاق ہے۔ کیا اس کے لئے واقعی مجھے قیامت کا انتظار کرنا پڑے گا۔ یا مرنا پڑے گا۔

باتیں تو بہت سی ہیں۔ کہنے کو تو بہت کچھ ہے۔ لیکن نجانے کیوں میں آپ سے ڈرتا بھی بہت ہوں۔ بلکہ آپ نے خود ہی تو ڈرایا ہوا ہے۔ مجھے بڑا ڈر لگتا ہے جلنے سے۔ کیا اللہ جی آپ کی محبت کافی نہی اسے سے بچنے کے لئے۔ بتائے نا مجھے بچا لیں گے نا آپ۔ ہاں ایک بات تو ضرور کہوں گا مجھے اور کسی بات کا جواب دیں یا نہ دیں۔ میں جب بھی یہ سوچتا ہوں کہ آپ سے پہلے کیا تھا؟ یا مرنے کے بعد کی دنیا میں کیسا ہو گا۔ میرا دم گھٹنے لگتا ہے۔ دل قابو سے باہر ہو جاتا ہے۔ میں اس لمحے میں ان سوالوں سے بھاگ جانا چاہتا ہوں۔ یہ سب کسیے کروں اللہ جی۔

ہو سکتا ہے کہ آپ کو اس خط میں کچھ اچھا نہ لگے اسے “میری” سوچ کی کم علمی سمجھ کر درگزر کیجئے گا۔ اور جواب ضرور دیجئے گا۔

آپ کی مخلوق میں سے ایک ادنی سا انسان

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *