Categories
طنزومزاح

بچے ہمارے عہد کے

آج صبح بیگم نے اتنی زور زور سے آوازیں دے کر اٹھایا کہ میں ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا۔ عموما بچے سکول چلے جاتے ہیں تو تیار ہونے کی میری باری ہوتی ہے اس لئے میں سویا پڑا رہتا ہوں اور بیگم بچے تیار کر کے بھیچ دیتی ہے۔ لیکن آج میں خوفزدہ سا ہو گیا۔
“کیا ہوا؟ کیا زلزلہ آ گیا ” میں نے غصے سے پوچھا
“اس گھر میں تو سکون کی نیند ہی نہی ہے” سوالیہ نگاہوں سے میں نے بیگم کو گھورا
“پندہ منٹ گزر گئے ابھی تک رکشہ والا نہی آی زرا فون کر کے پوچھیں” بیگم نے کہا اور “ان کی تو نیند ہی پوری نہی ہوتی جب دیکھو سونا سونا سونا” بڑبراتے ہوئے بیگم نے کچن کا رخ کیا۔
“غازی” میں نے اپنے بیٹے کو آواز دی۔” زرا میرا فون دینا”
وہ فون لے کر آیا۔ میں نے جمائیاں لیتے ہوئے نمبر ڈھونڈ کر ملایا اورفون ملے ہی میں نے سلام کیا۔
“آئے نہی ۔۔ابھی تک” میں نے رکشہ والے سے پوچھا
“جی۔۔۔۔۔۔۔۔” ایک لمبی سی جی کہ کر رکشہ والے نے کہا
“میں تو بچوں کو لیکر سکول پینچ گیا ہوں”
“سکول پہنچ گئے؟” میرے لہچے میں حیرانی تھی۔
“جی۔ صبح غازی نے فون کیا تھا کہ آج چھٹی کریں گے” رکشہ والے نے جواب دیا
میں نے فون چارپائی پر پھینگا اور چلایا “غازییییییییییییییییییییییییییییییی”
غازی تو کمرے میں گھس گیا تھا۔ بیگم نے آ کر حیرانی سے مجھے دیکھا میں نے اسے دیکھا اب اس عمر میں صرف دیکھنا ہی تو رہ جاتا ہے۔ اوراشارے سے کہا “کچھ کہئے گا نہی” جی اب وہ اشارے کہاں جن سے دل میں ہلچل مچا کرتی تھی
چلیں اشارے نے زرا غصہ کم کیا۔ میں نے غآزی کو پھر صدا لگائی اور بلایا
“تم نے فون کیوں کیا تھا” میں نے رعب سے پوچھا
“وہ ماما سو رہی تھی میں نے سوچا آج چھٹی کروانی ہو گی” اس نے سر جھکائے جواب یدا
میری بیگم نے پھر آنکھوں آنکھوں میں اشارہ کیا کہ کچھ نیہی کہنا۔ میں نے ہمیشہ کی طرح اشارہ مان لیا۔ فون اٹھایا قریپ رکشہ والے کھڑے ہوتے ہیں جن کے ساتھ عموما میں آفس آتا ہوں۔ وہ باہر ہی تھا گلی کی موڑ پر۔ اسے بلایا بچوں کو بٹھایا اور سکول بھیچ دیا۔ بچے ہکا بکا مجھے دیکھ رہے تھے۔ انہیں آج پتہ چلا ہوا گا کہ وہ سر ہیں تو ہم سوا سیر ہیں آخر باپ ہیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *