Categories
کہانیاں

لالچ بری بلا ہے

ایک جنگل میں ایک سفید برف جیسا خرگوش رہتا تھا۔ جسے اس کے والدین گگلو کہ کر پکارا کرتے تھے۔ گگلو کے 5 بہن بھائی تھے۔ اٹلو، شٹلو، مٹلو، ببلو اور شٹالو، پہلے چار بھائیوں کے ساتھ شٹالو بہن کا ساتھ گھر کو گھر بناتا تھا۔
سب بہن بھائی ماں باپ کے ساتھ ہنسی خوشی رہ رہے تھے . گگلو کو گاجر کھانا بہت پسند تھا۔ اسے جب جہاں گاجر مل جاتی وہ فٹا فٹ کسی کونے کھدرے میں گاجر سمیت چھپ جاتا اور مزے لے لے کر کھاتا جاتا تھا۔ ساتھ ساتھ وہ گنگناتا بھی جاتا تھا۔ “لال لال گاجر، مزے مزے کی گاجر، جب بھی کھاتا ہوں میں، مزے سے کھاتا ہوں میں” کبھی کبھی تو ایسا ہوتا کہ اسے چھپے ہوئے اتنی دیر ہو جاتی کہ ماں باپ پریشان ہو جاتے اور سارے بہن بھائی اسے ڈھنڈنے نکل جاتے۔ کیونکہ گلگو چھوٹآ بھی تھا ور اسی وجہ سے سب اسے بہت پیار کرتے تھے۔ صرف سمجھا کر چھوڑ دیا جاتا تھا ورنہ گلگلو کے ابا بڑے غصہ والے تھے۔ کئی بار ایسا ہوا کہ وہ بہن بھائیوں کے حصے کی گاجر بھی کھا جاتا۔ لیکن چھوٹا ہونے کی وجہ سے کوئی اسے کچھ نہی کہتا تھا۔
ایک دفعہ اسیا ہوا کہ گگلو کو بہت بھوک لگی ہوئی تھی۔ اس نے گھر میں دیکھا کہ کہیں اسے گاجر مل جائے اور وہ اپنی پسندیدہ جگہ پر جا کر خوب مزے لے کر اسے کھائے لیکن اس کی یہ خواہش شرمندہ تعبیر نہ ہو سکی۔ وہ اداس گھر کے ایک کونے میں بیٹھ گیا۔ ماں نے بہت سمجھایا کہ کچھ اور کھا لے ابا شام کو لے آئیں گے لیکن گلگو نے تو ضد ہی پکڑ لی کہ اسے صرف گاجر چاہئے۔ شٹالو نے بڑے پیار سے سبزیوں کا متنجن تیار کیا تھا اور اس کی خواہش تھی کہ گگلو اسے کھائے لیکن گگلو نے اسے بھی انکار کر دیا۔ اسی اداسی میں وہ گھر سے نکل آیا اور باہر گھومنے لگا۔ ان کے ہمسائے میں بٹآلو فیمیلی رہا کرتی تھی۔ گگلو کو اندازہ تھا کہ ان کے ہاں گاجروں کا سٹاک ہوتا ہے اگر وہ چپکے سے ایک آدھ چوری کر لے گا تو کسی کو پتہ نہی چلے گا ور اس کی خواہیش بھی پوری ہو جائے گی۔ اس نے سرنگ بنانی شروع کی۔ آخر کافی محنت کے بعد وہ بٹالو کے گھر میں داخل ہو چکا تھا اس کا پہلا منصوبہ کامیاب ہوچکا تھا۔ دوسرا اس نے گاجر کی خوشبو کو سونگھ کر وہ جگہ ڈھونڈ لی جہاں گاجریں رکھیں تھیں۔ اس نے اس میں سے ایک گاجر نکالی اور واپس غلطی سے سرنگ کی بچائے دروازے سے نکلنے لگا کہ شٹالوں کو دروازے پر دیکھ کر اس کی گھگھی بندھ گئی۔ شٹالوں سبزیوں کا منتنجن دیتےا ور ان سے ایک گاجر گگلو کے لئے لینے آئی تھی۔
گگلو کے ابا نے گلگو کو خوب مارا۔ وہ ہر بات برداشت کر سکتے تھے لیکن چوری کو برداشت نہی کرسکتے تھے کبھی ایسا نہی ہوا تھا کہ کسی اور نے ایسا کام کیا ہو۔ سب بہن بھائیوں کے ماں سمیت دل دکھے ہوئے تھے لیکن سب جانتے تھے کہ اسی میں گلگلو کی بہتری ہے۔ گگلو روتی آنکھوں اور اداس چہرے کے ساتھ اپنی پسندیدہ جگہ پر آ گیا۔ کب سے وہ بھوکا تھااور اب تو بھوک کے مارے اس کا برا حال تھا۔ کسی نے اس سے کھانے کو نہی پوچھا کاش اسے وہی گاجر مل جاتی جو بٹالو انکل نے شٹالو کو دے دی تھی۔
یہی سوچتے سوچتے اس کی آنکھ سے آنسو نکلنے لگے۔کہ کاش وہ ماں باپ کا اکلوتا بیٹا ہوتا۔ پھر وہ بہن بھائیوں کی گاجریں بیھ وہیکھا جاتا کاش دنیا میں کوئی نہ ہو اور وہ ساری گاجریں کھا جائے۔ وہ یہی سوچ ہی رہا تھا کہ اچانک ایک پری کے پر پھرپھرانے کی آواز آئی۔ اندھیرے میں اچانک روشنی دیکھ کر گگلو گھبرا گیا۔ پری نے بہت پیار سے گگلو کی طرف دیکھا ور بولی “مجھ سے مت ڈرو۔ میں تمہے نقصان پہچانے نیہ تمہاری خوایش پوری کرنے آئی ہوں۔ بولو کیا خواہش ہے؟
گگلو نے پہلے تو سوچا کہ وہ گاجر مانگ لے لیکن پھر یہ سوچ کر کہ گاجر ختم ہو گیئ تو پھر کون گاجر دے گا۔ اس نے پری سے کہا کہ اے پیاری پر ایسا کرو کہ سارے خرگوشوں کو ختم کر دو اور میں ہوں اور گاجریں ہی گاجریں۔
پری نے دکھ بھری آنکھوں سے گگلو کی طرف دیکھا اور بولی “گلگلو سوچ لو میں تو تمہاری خواہش پوری کر کے چلی جاؤں گا بعد میں تمہے افسوس نہ ہو”
گگلو نے ایک جست لگائی اور پری کے قریپ پہنچ گیا اور بولا “اچھی پری کیا تم میری یہ خواہش واقعی پوری کر سکتی ہو۔؟”
پری نے اپنی چھڑی ہلائی اور ہر طرف روشنی بکھر گئی۔ گگلو نے سر اٹھا اٹھا کر دیکھنا شروع کیا۔ ہر طرف گاجریں ہی گاجریں تھیں۔ اس نے کانپتے کانپتے ہاتھوں سے ایک گاجر اٹھائی اور چاروں طرف دیکھتے دیکھتے کھانے لگا۔ کہیں کوئی نہی تھا وہ اکیلا تھا ور گاجریں اس کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔ اس کی سب سے بڑی خواہش پوری ہو چکی تھی۔ اب وہ اتنی گاجریں کھائے گا کہ ابس کھاتا ہی جائے گا۔ گاجریں کھاتا جاتا تھا اور گاجروں میں کوئی کمی نہ تھی۔ جب گگلو کا پیٹ بہت زہادہ پھر گیا تو اسے نیند آنے لگی۔ اور وہ سونے لگا لیکن اچانک اسے ماں کی یاد آنے لگی۔ ماں اسے لوری گا کر سنایا کرتی تھی۔ سو جا رے دلارے، سو جا چاند اور تارے اور آج کوئی اسے لوری سنانے والا نہ تھا۔ اب اسے نیند کیسے آئے گی۔ جب تک شٹالو اس کے ماتھے پر پوسہ نہی دیتی تھی وہ سوتا نہی تھا۔ اب وہ شٹالو کو کہاں سے لائے۔ اچانک اس کے پیٹ میں درد شروع ہو گیا۔ اسے تکلیف محسوس ہونے لگی تھی۔ زیادہ گاجریں کھانے سے اس کی طبیعت بگڑنے لگی تھی۔ اوہ اسی لئے ماں اسے مناسب مقدار میں کھانے کو دیتی تھی۔ تکلف بڑھتی جا رہی تھی اور چاروں طرف گاجروں کے سوا کچھ نہ تھا۔ گگلو دھاڑیں مار مار کر رونے لگا اور سوچنے لگا کہ اس نے لالچ میں آ کر یہ خواہش کر دی۔ اور اب وہ اکیلا ہے کیا اکیلے بھی زندگی زندگی ہے۔ کاش اس کے ماں باپ بہن بھائی سب دوبارہ آ جائیَ لیکن رو رو کر وہ جپ ہو چکا تھا دور دور تک سوائے گاجروں کے کچھ نہی تھا۔
اچانک اسے ایسا محسوس ہونے لگا اس کا پیٹ پھٹ جائے گا۔ اس نے تھوڑا بہت چلنے کی کوشش کی تو اسے قے شروع ہو گئیں۔ قے کر کے وہ نڈھال گر چکا تھا۔ گاجریں اسے خوفناک ہیولے دکھائی دے رہے تھے۔ خاندان کی یاد اسے جھنجھوڑ رہی تھی۔ ماں کی بات اچانک اس کے زہن میں آئی کہ جب بھی کوئی مصیبت ہو فورا سر کو سجدے میں رکھ کر اللہ تعالی سے دل سے دعا مانگو وہ ضرور پوری ہو گی۔ گگلو نے ہمت کر کے زاروقطار روتے ہوئے سر کو سجدے میں رکھا اور اللہ تعالی سے اپنے لالچ کی معافی مانگی۔ ابھی دعا پوری نہی وہئی تھی کہ وہی پری دوبارہ حاضر ہوئی اب وہ بہت خوش تھی۔ کہ گگلو کو احساس ہو چکا تھا کہ ماں باپ، بہن بھائی اور عزیز رشتہ داروں کے بغیر زندگی کچھ نہی۔ سب کے ساتھ مل جل کر رہنے میں ہی زندگی کا راز چھپا ہے۔ پری نے چھڑی ہلائی اور سب کچھ پھر ویسے ہو گیا۔ شٹالوں گاجر اور سبزیوں کا متنجن لئے اس کے سامنے کھڑی تھی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *