Categories
افسانے

المیہ

میرے ایک ہاتھ میں ٹرے تھی جس میں چھوٹی چھوٹی کٹوریوں میں فیرنی ڈلی ہوئی تھی اور اس کے اوپر ایک بڑا سا رمال ڈھکنے کے لیئے دیا ہوا تھا۔ میں نے گھنٹی بجانے کے لیئے دروازہ کے دائے بائیں دیکھا، گھنٹی نہ پا کرمیں نے دروازہ بجایا۔ گھر دیکھ کر لگ رہا تھا کہ کافی عرصہ پرانا بنا ہوا ہے۔ پینٹ ہوئے جیسے صدیاں بیت گئی ہوں۔

ابھی میرا مطالعہ گھر کے بارے میں مکمل نہی ہوا تھا کہ یکدم دروازہ کھل گیا، میرے سامنے پندرہ یاں سولہ سال کا ایک جوان کھڑا تھا، لباس سے اس کے غربت ٹپک رہی تھی اور چہرے پر معصومیت۔ ایسا لگ رہا تھا جیسےاگر  کسی جڑیاں کو پنجرے میں بند کر دیا جائے اور کافی دیر کی کوشش کے بعد وہ نڈھال ہو کر کسی کونے میں بیٹھی ہو اور دل ہی دل میں دعا کر رہی ہو، مجھے آزاد کر دو۔ نوجوان نے سوالیہ نگاہوں سے میرے جانب دیکھا پھر ٹرے کی طرف۔ یکدم اس کے چہرے پر تناؤ ختم ہوا اور آنکھوں میں ایسی چمک آ گئی جیسے ایک بچہ کی آنکھوں میں آ جاتی ہے جب وہ بھوک کے وقت اپنی ماں کو اپنے قریب دیکھتا ہے۔ میں نے اسے سلام کیا، اس کے سلام کے جواب پر میں نے کہا، مجھے ساجد کہتے ہیں ہم چار دن پہلے ہی اس محلے میں شفٹ ہوئے ہیں آج چونکہ مبارک دن تھا سوجا تھوڑی میٹھی فرنی بھی محلے میں تقسیم کر دوں اور جان پہچان بھی ہو جائے۔ میں نے رمال اٹھا کر فیرنی کی کٹوری اس کے ہاتھ میں تھمائی، ایک کٹوری دیکھ کر اس کے آنکھوں کی چمک پھر گم ہو گئی، ایسا لگا جیسے وہ چاہتا ہو ساری ٹرے اسے ہی دے دوں۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

وہ اندر گیا، اندر سے ایک نحیف سی آواز سنائی دی “کون تھا بیٹا”۔ نئے ہمسائے ہیں یہ تھوڑی فیرنی دی ہے انہوں نے۔ لڑکے نے جواب دیا۔

چند لمحوں کے بعد وہ واپس آگیا، کٹوری کو واپس کرتے ہوئے بولا، جی مجھے حمید کہتے ہیں۔ ہم کافی پرانے یہاں کے رہنے والے ہیں۔ آپ کا شکریہ، آئے ایک کب چائے پیتے جائے۔ دل تو میرا بہت چاہا کہ رک جاؤں کچھ تھا اس نوجوان مٰیں، جیسے کوئی کہانی بند کتاب میں ہو، جب تک کھولی نہ جائے گی اور شروع سے آکر تک نہ پڑھا جائے گا، ایک خلش رہتی ہے ایک کسک رہتی ہے۔ لیکن چونکہ مجھے اور بھی بہت سے کام کرنے تھے اس لئے میں آگے بڑھ گیا۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

یہ میرے پہلی ملاقات تھی حمید سے۔

اس کے بعد جب کبھی گلی سے گزرتے ہوئے، مسجد میں، کبھی کونے میں پرچون کی دکان میں میں نے ہمیشہ اسے جلدی میں پایا۔ سلام کا جواب دیتے ہی وہ یوں گم ہو جاتا جیسے وہ تھا ہی نہی۔ ایسا لگتا تھا جیسے اگر کچھ لیٹ ہو گیا تو کچھ نہ چکھ ہو جائے گا۔کافی دفعہ چاہا کبھی اس سے بات کروں پوچھو کہ اس چھوٹی سی عمر میں کیا روگ لگا ہوا ہے لیکن ہوا سے کون بات کر سکتا ہے، ایک لمحہ میں یہاں اور دوسرے لمحہ میں وہاں۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

ایک دن دروازہ کی گھنٹی بجی۔ میں نے دروازہ کھولا تو حیران رہ گیا حمید کھڑا تھا، سلام دعا کے بعد جب میں نے سوالیہ نگاہوں سے اس سے پوچھا تو روانی میں بولتا ہی چلا گیا۔ جیسے پیچھے پولیس لگی ہو۔” وہ ماں کی طبیعت خراب ہے” زرا آپ کا موٹر شائیکل چاہئے تھا، بس گھنٹے دو گھنٹےمیں واپس کر دوں گا۔  میں نے اس سے ماں کی خیریت دریافت کی، اندر گیا، موٹر شائیکل کی چابی لی اور اس کے ہاتھ میں تھما دی، کوئی مسئلہ نہی، کسی چیز کی ضرورت ہو تو بتانا۔ اور وہ چلا گیا۔

  واپس آیا تو میری بیگم حیران نگاہوں سے مجھے دیکھ رہی تھی، اس سے رہا نہ گیا، یہ آپ اپنی موٹر شائیکل تو کسی کو نہی دیتے، آج سورج کدھر سے نکل آیا، دل ہی دل میں میں ہنسا اور سوجا۔۔۔کوئی موقعہ نہ جانے دینا بیگم۔۔اس کی والدہ کی طبیعت خراب تھی میں نے جواب دیا۔

جب وہ  موٹر شائیکل دینے واپس آیا تو میں نے اسے بیٹھک میں بٹھا لیا، لیکن اسے جلدی تھی “سراسیمگی میں بولو “ماں اکیلی ہے اور بیمار بھی” مجھے چلنا چاہیئے، لیکن میں نے پھر بھی اسے جائے لے لیئے بٹھا ہی لیا۔جب میں نے اسے کریدا، اس کے حالات کے بارے میں پوچھا تو پہلے تو حیرانگی سے مجھے دیکھنے لگا اور ایسا لگا جیے کسی ہمدرد کو پا کر اس نے سارے بند توڑ دئے ہوں اس کی آنکھیں آنسوؤں سے پھر گئی، جسے اس نے پینے کی بلکل کوشش نہی کی لگا جیسے آنسوں پیتے پیتے وہ تھک گیا ہو۔ اس کی زبانی پتہ چلا کہ

اس کی ماں کی طبیعت بہت خراب تھی، ،  اس کی ماں پستر سے لگی ہوئی ہے، چلنے پھرنے سے معزور تھی۔  یہ ایک ہی بیٹا تھا،  پاب فوج میں تھا پانچ سال پہلے ایک پم دھماکے میں مارا گیا، ماں پر فالج کا اٹیک ہوا اور پستر پہر لگ گئی، کوئی ساتھ دینے والا بھی نہی، اچھے خاصے رشتہ دار ہیں لیکن مصیبت میں کون پوچھتا ہے، جب حالات ایسے ہو جائیئں تو اپنے ساتھ چھوڑ دیتے ہیں،میں سارا سارا دن  پڑھتا ہوں یاں ماں کی دیکھ بھال کرتا ہوں اور چاہتا ہوں  میٹرک میں کوئی پوزیشن لے لوں تاکہ سسکالرشپ پر آگے پڑھ سکے ۔  پنشن سے گزارہ بہت مشکل ہے۔ پڑھائی میں کہاں سے رقم لا سکتا ہوں۔ اس کی گفتگو سن کر تو میرے دل میں اداسی کی ایسے لہر جاگی کہ کئی دن میں اس کے دکھ کو محسوس کرتا رہا۔  میں نے اسے دعاوں اور نیک تمناؤں کے ساتھ رخصت کیا۔ اس کے جانے کے بعد کافی دیر میں سوچتا رہا، حالات انسان سے کیا کچھ کروانے کے لیئے تیار ہو جاتے ہیں۔ کاش میں اس کی کوئی مدد کر سکتا لیکن آج کے دور میں یہ کہاں ممکن تھا زندگی کی رفتار اتنی تیز ہو گئی ہے کہ اس کا پیچھا کرنا متوسط طبقہ لے لیئے مشکل ترین ہوتا جا رہا ہے۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

کچھ دنوں کے بعد گلی بہت شوروغل کی آواز سن کر میرے بیگم نے کہا، “زرا پتہ تو کریں خیر ہو، بہت آوازیں آ رہی ہیں” سردی میں ہم سب لحافوں میں گھسے ہوئے ٹی وی پر نظریں جمائے بیٹھے تھے۔ ایسے میں باہر نکلنا جان جوکھوں میں ڈالنا تھا، لیکن جب آوازیں بہت تیز ہو گئی تو میں باہر نکلا تو کیا دیکھا کہ حمید کے گھر سے باہر محلے والوں کا ہجوم تھا۔ فورآ میں نے سوجا شکر ہے اس کی ماں اللہ کو پیاری ہو گئی۔ اب یہ بچہ کچھ کر سکے گا۔  کیا ہوا میں نے ایک ہمسائے سے پوچھا، ہونا کیا ہے وہ ہی گیس،کی آنکھ مچولی نے ایک اور گھر کو تاک لیا ہے۔ گیس کی لوڈشیڈنگ نجانے اور کتنے گھر تباہ کرے گی۔ کبھی آ جاتی ہے کبھی ہلکی  ہو جاتی ہے، کبھی بند اور لوگو کے گھر اجار دیتی ہے۔ جب میں مکان کے اندر داخل ہوا تو ایک طرف حمید کی جھلسی ہوئی لاش اپنے خوابوں میں لپٹی پڑی تھی اور قریب ہی اس کی بوڑھی ماں زندہ لاش کی صورت ایک چارپائی پر پڑی تھی اور چند محلے کی عورتوں کے حیران اور پریشان چہرے ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔  ،

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *