Categories
افسانے

بھکاری

وہ بہت لڑکھڑا کر چل رہا تھا۔ اس کی ایک ٹانگ کی شلوار آدھی سے زیادہ کٹی ہوئی تھی۔ اس کی برہنہ ٹانگ ،آدھی سے زیادہ، خون سے رس رہی تھی۔ اس ٹانگ کا گوشت دیکھ کر مجھے ایسا لگا جیسے ابھی اس کے جسم سے بوٹیاں نیچے گر نے لگیں گی۔ کپڑے اس کے کپڑے جا بچا پھٹے ہوئے ، بال بکھرے ہوئے اور گرد آلود تھے۔ چہرے پرمردنی چھائی ہوئی تھی۔ شکل سے لگ رہا تھا بہت عرصے سے اس نے نہ کچھ کھایا ہے اور نہ کچھ پیا ہے <p> </p> اس کے ہاتھ میں کچھ ڈاکٹر کے نسخے تھے۔لنگڑا کر چلنے کی وجہ سے اس کا کُبّ نکلا ہوا تھا۔ وہ ایک ایک گاڑی کے پاس جا رہا تھا محسوس ہو رہا تھا کرب کی وہ اس حالت میں ہے کہ ہوا کا چھونکا بھی اسے گرا دے۔ وہ ابھی گرا کہ ابھی۔ زندگی گھسیٹ گھسیٹ کر جینے والے جانتے ہیں کہ سانس لینا کتنا مشکل کام ہے۔ میں ویگن کی کھڑکی سا سارا منظر دیکھ رہا تھا کوئی بھی گاڑی والا اپنی گاڑی کا شیشہ نیچے نہی کر رہا تھا کہ چند سکے اس کے کاسہ میں ڈال دے۔ آنسو اس کے چہرے کو بھگو رہے تھے۔ وہ گاڑی کی فرنٹ سیٹ پر جاتا، اپنے کاغزات دکھاتا، ان پرچیوں کی حالت بھی اس کی اپنی حالت سے زیادہ اچھی نہی تھی۔ میرا دل ہمدردی سے بھر آیا میں خود ہسپتال جارہا تھا۔ میرے ہاتھ میں کھانا تھا جو مجھے ہسپتال پہنچانا تھا۔ ہائے بے چارہ کیا معلوم میں اس کی مدد کروں تو اللہ تعالی ہماری مدد کرے۔ بس یہ سوچ کر میں گاڑی سے اتر آیا جیب سے پچاس روپئے نکالے کہ اسی اثنا میں گاڑیاں چل پڑی۔ وہ شخص مجھے نظر نہ آیا۔ میں نے حیران نگاہوں سے چاروں جانب دیکھا لیکن وہ کہیں نہی تھا۔ وارث خان سٹاپ کے نزدیک ہی کچھ گلیاں اندر کی جانب جاتی ہیں میں نے سوچا شائد وہ ادھر گیا ہو گا۔ میں ادھر چل پڑا۔ وہ واقعی گلی کے کونے پر کھڑا تھا۔ میں تیز قدموں کے ساتھ اس کے قریب پیہنچا۔ وہ بلکل ٹھیک ٹھاک حالت میں فون پر کسی سے بات کر رہا تھا” حرامچادی، آج کی رات میری ہے دو سو اکٹھے کر لیئے ہیں تیری ماں کےخصم کے لئے۔ آج کسی اور کو نا گھسایو ورنہ تیزاب دال دوں گا تیرے منہ پر”

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *