قبر اصغر کی بنانے میں بہت دیر لگی
شہ کو اک چاند چھپانے میں بہت دیر لگی
گرم ریتی سے بدن ڈھانپ دیا شہ نے مگر
چہرہ اصغر کا چھپانے میں بہت دیرلگی
گھٹری جب لاشہ قاسم کی کھلی خیمے میں
شہ کو ترتیب بنانے میں بہت دیرلگی
چند سطریں تھیں مگر لاش علی اکبر پر
شہ کو خط پڑھ کے سنانے میں بہت دیرلگی
باپ کی لاش سے دروں کی اذیت دے کر
ایک بچی کو ہٹانے میں بہت دیرلگی
کچھ قدم دور ہے بازار سے دربار مگر
پھر بھی شہزادی کو آنے میں بہت دیر لگی
شہ نے ہر لاش کو جلدی سے اُٹھایا لیکن
لاش اکبر کی اُٹھانے میں بہت دیر لگی
ٹکڑے چُنتے ہوئے قاسم کے کہا مولا نے
ہائے افسوس کہ آنے میں بہت دیرلگی
اس قدر پیاس سے سوکھا تھا گُلِوئے سرور
شمر کو تیغ چلانے میں بہت دیر لگی
کربلا جا کے تکلم نے یہ ہی پوچھا تھا
مجھ کو سرکار بلانے میں بہت دیر لگی
https://www.youtube.com/watch?v=cP_ZX-zfOaQ