Categories
نوحے

مجھ کو معاف کرنا میں زندہ آیا ہوں کربلا سے

تڑپتے لاشوں کو دیکھ کر بھی دعاؤں پر کیوں تلُی ہوئی تھیں
میں تیرے زخمی بدن سے ہٹ کر کیوں اپنی سوچوں میں گم کھڑا تھا
جہاں پر کنبہ قبیلہ سارا زمین پہ بکھرا ہوا پڑا تھا

میں گنجِ شہداء کی بکھری لاشوں پہ اپنے ہوش و حواس میں تھا
میں ٹھنڈا پانی بھی پی رہا تھا جہاں پہ اصغرؑ بھی پیاس میں تھا

جہاں پہ قاتل نے ننھی دخترؑ کے منہ پہ اتنے تماچے مارے
جلائے خیمے لگائے دُرّے تڑپتی بچی کے دُر اُتارے
جہاں پہ اصغرؑ کے خون کو تُو جبینِ اقدس پہ مل رہا تھا
جہاں پہ غازیؑ کے ہاتھ لے کر تُو دشمنوں میں بھی چُپ کھڑا تھا
جہاں پہ تیری یہ ریشِ اقدس لہو میں اصغرؑ کے تر بتر تھی
جہاں پہ اکبرؑ تڑپ رہا تھا تمام آنکھوں کی روشنی تھی
تمام مقتل کی ہر جگہ پر غذا کی ہردم تلاش میں تھا
دعاؤں میں تھا میں رزق و روزی اور فکرِ معاش میں تھا
میں اپنے چہرے کی زیب و زینت میں انتہائی مگن رہا تھا
شکستہ لاشوں کے درمیان بھی میں نرم بستر پر خوش پڑا تھا
میں ایک رسمی سلام کر کے کیوں تیری تربت سے ہٹ گیا تھ
میں فاصلوں سے بس آتے جاتے ہی تیرے روضے پہ جُھک رہا تھا
دریدہ دہنی کی انتہا تھی میں اچھے کھانوں پہ لڑ رہا تھا
کہاں کے آنسوں کہاں کا گریہ میں اس تردُّد میں کب پڑا تھا
وہاں سے آکر میں ہر جگہ پر فضائل اپنے سنا رہا تھا
ستائش باہمی میں اُلجھا میں داد بےحد ہی پا رہا تھا
یہ میری آہیں یہ میرا گریہ بنامِ زہراؑ قبول کرلے
ندامتوں کے یہ چند آنسو بطورِ گریہ قبول کرلے
میں تیرا مجرم ہو میرے مالک تو مجھ کو پتھر سے دُر بنادے
اے کربلا کے قدیم و قادر تو مجھ کو آسی سے حُر بنا دے
میں اپنے قائمؑ کی خیر مانگوں ہرایک اپنی دعا سے پہلے
حسینؑ۔۔۔۔
حسینؑ۔۔۔۔
حسینؑ۔۔۔۔
مجھ کو معاف کرنا میں زندہ آیا ہوں کربلا سے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *